مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا سے نقل کیاہے کہ جمیعت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بنوں میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقوں میں جے یو آئی کے علما کی ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے، ہمیں بتایا جائے قاتل کون ہے، ورنہ قتل کی ذمہ داری ریاستی ادارے قبول کریں، دینی مدارس پر اداروں کا قبضہ ہے، مدارس کو دہشت گردی کا مرکز کہا جارہا ہے، اور پھر مدارس کے علما سے تعاون بھی لیا جارہاہے۔
انہوں نے کہا کہ پریشان کن صورتحال ہے، ادارے ملک کو مذاق نہ بنائیں اور اس میں اپنی سیاست نہ کریں، کیا ریاست چاہتی ہے کہ ہمارے نوجوان جذبات میں آکر بندوق اٹھالیں، علما ساتھ نہ کھڑے ہوتے تو فوج ملک کو نہیں بچاسکتی تھی، اس کے باوجود ہمیں سزا دی جارہی ہے۔
فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے اردگرد پاگل اور بے وقوف جمع ہیں جو ایک احمق کے پیچھے دوڑ رہے ہیں، جس کیخلاف جہاد ہونا چاہیے وہ کہتا ہے ہم جہاد کررہے ہیں، ہم آپ کےلیے زمین اتنی گرم کردیں گے کہ یوتھیو کے گرم تلوے اس پر نہیں رکھے جاسکیں گے، تمہاری چھوٹی چھوٹی تتلیوں کے پر اس گرمی کو گرداشت نہیں کرسکیں گے، عمران خان تم حد میں رہو۔
فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے عمران خان کے پیچھے کونسی قوتیں ہیں، یہی فوج آپکو سپورٹ کر رہی تھی اور ہمیں اعتراض تھا، تب آپ کے نزدیک فوج اچھی تھی، آج جب جنرل نیوٹرل ہوگیا تو تم اسے جانور کہہ رہے ہو، ہم تمہارے آقاؤں کو جانتے ہیں، یہ بھی تمہیں آقا نے پڑھایا ہے کہ مجھے گالی دیا کرو پاکستان میں یہی سیاست چلتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف غیر ضروری شرافت دھکا رہے ہیں، میں نے حکومت کو کہا ہے کہ عمران خان کو جیل میں ڈالا جائے، رانا ثنا کو حرکت میں لاؤ، کیوں فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ تاخیر کا شکار ہے۔
فضل الرحمان نے کہا کہ جو معاشی بحران چار سال میں پیدا کیا گیا ، ہمیں کہا جا رہا کہ اسے چار دن میں ختم کرو، یہ قلیل مدتی حکومت ہے، اسے چاہیے طویل مدتی کی بجائے قلیل مدتی فیصلے کرے، میں نے عوامی مخالفت کے پہلو سے قیمتیں بڑھانے سے اختلاف کیا تھا، میں نے پہلی ہی میٹنگ میں کہا تھا کہ آئی ایم ایف سے بات مت کرو، نئی شرائط پر معاہدہ کرو، لیکن سب لوگوں کی دوسری رائے آگئی تو میں کیا کرسکتا ہوں، میں اور نواز شریف بھی بے بس ہوگئے۔
فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ایک جج ان کے حق میں فیصلہ دیتا ہے، اس جج کا داماد الیکشن لڑ رہا ہے اور اس کی حمایت بھی کررہا ہے، اس کے سارے کیس وہ اپنے پاس بھی رکھنا چاہتا ہے، ایسا نہیں چلے گا، انصاف کی کرسی پر بیٹھا شخص انصاف کے تقاضے پورے کرتا نظر آنا چاہیے، ہم عدلیہ کو شک و شبہ سے بالاتر دیکھنا چاہتے ہیں جہاں ان کے فیصلوں پر کوئی اعتراض کرسکے۔
آپ کا تبصرہ