مہر خبررساں ایجنسی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب کی خفیہ عدالت کے مظالم اور غیر انسانی حرکتوں کا پردہ فاش کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے قائم خفیہ عدالت کو پرامن ناقدین، کارکنوں، صحافیوں، علما اور دوسرے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف " ظلم و جبر کے ہتھیار" طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس میں سے کچھ کو سزائے موت اور کچھ کو پھانسی بھی دی گئی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی 53 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے لیے عدالتی دستاویز کا جائزہ لیا اور ان کارکنان اور وکلا سے بات کی جو خصوصی فوجداری عدالت کی خفیہ سماعتوں پر نظر رکھتے ہیں۔رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ عدالت میں ہونے والے ٹرائلز انصاف کا مذاق ہیں اور اس کے ججز ان افراد کی آواز دبانے کو تیار ہیں جو بولنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ 2008 میں دہشت گردی سے متعلق جرائم کے لیے قائم کی گئی عدالت نے 2011 میں انسداد دہشت گردی قوانین کے وسیع پیمانے پر شاہ سلمان اورولیعہد محمد بن سلمان کی توہین کو جرم قرار دیتے ہوئے حکومتی ناقدین پر مقدموں کا آغاز کیا تھا۔ایمنسٹی کا کہنا تھا کہ ان کارروائیوں میں کچھ الزامات میں سعودی عرب کے حکمرانوں کی نافرمانی، عہدیداروں کی وفاداری پر سوال، مظاہروں کی کال دے کر سکیورٹی متاثر کرنا اور اکسانا شامل ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں سے بات کرنے یا سوشل میڈیا استعمال کرنے پر غیر ملکی گروپس کو جھوٹی معلومات کا پرچار کرنے کو جرم سے جوڑا جاسکتا ہے۔
ایمنسٹی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ریجنل ڈائریکٹر حبا موریف کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیق اس نئی اصلاحی اور چمکتی ہوئی تصویر کو جھوٹا کہتی ہے جو سعودی عرب حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی حکومت خصوصی عدالت کو انسداد دہشت گردی قانون سے ناقدین کو خاموش کروانے کے لیے ایک قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کررہی ہے۔
ایمنسٹی کا مزید کہنا تھا کہ سعودی حکومت کا " ولی عہد " کے ماتحت اصلاحات کا بیان سعودی عرب میں اس حقیقت سے متضاد ہے جہاں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں اور نوجوان شہزادے کے درجنوں ممکنہ ناقدین جیل میں ہیں یا قومی سلامتی کے حوالے سے غیر واضح الزامات کی بنیاد پر مقدمے کا سامنا کررہے ہیں۔
آپ کا تبصرہ