مہر خبررساں ایجنسی نے ہندوستان ٹائمز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ 'اے ایم یو' کے وائس چانسلر کے نام لکھے گئے خطر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے سابق نائب صدر سجاد راتھڑ کا کہنا تھا کہ اگر تذلیل نہیں روکی گئی تو 1200 سے زائد کشمیری طلبہ آخری آپشن کے طور پر 17 اکتوبر کو اپنے گھر واپس چلے جائیں گے۔
خیال رہے کہ 3 کشمیر طلبہ پر الزام ہے کہ انہوں نے اے ایم یو کے سابق پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر منان وانی کے قتل کے خلاف احتجاج میں بھارت مخالف نعرے لگائے تھے۔
سجاد راتھڑ نے بغاوت کے الزامات کو ’انتقام‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے اجازت نہ دینے کے باعث وہ لوگ غائبانہ نماز جنازہ کا انعقاد نہیں کرسکے۔ اخبار کے مطابق طلبہ یونین کے سابق نائب صدر کی جانب سے یہ خط بڑی تعداد میں کشمیری طلبہ کی موجودگی میں اے ایم یو کے پروکٹر محسن خان کے حوالے کیا گیا۔
دوسری جانب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ترجمان شافع کدوائی نے کشمیری طلبہ کے حراساں کرنے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے زور دیا کہ ’کوئی بے گناہ متاثر نہیں ہوگا‘۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ پر الزام ہے کہ وہ مبینہ طور پر بھارت مخالف نعرے لگا رہے تھے اور منان وانی کا نماز جنازہ ادا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
آپ کا تبصرہ