15 مئی، 2024، 4:58 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

صیہونی تحریک سے ناجائز اسرائیل تک، تاریخی جائزہ

صیہونی تحریک سے ناجائز اسرائیل تک، تاریخی جائزہ

یہ کہا جا سکتا ہے کہ صہیونیت کا شیطانی وجود اس وقت رونما ہوا جب فرعونی جادوگروں کا ایک گروہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کے روپ میں سامری اور اس کے مشہور بچھڑے کے گرد جمع ہو کر موسیؑ کی قوم اور ساتھیوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے لگا، یہی اس منحوس وجود کا آغاز ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: یہ کہا جا سکتا ہے کہ صہیونیت کا شیطانی وجود اس وقت رونما ہوا جب فرعونی جادوگروں کا ایک گروہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کے روپ میں سامری اور اس کے مشہور بچھڑے کے گرد جمع ہو کر موسی ع کی قوم اور ساتھیوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے لگا، یہی اس منحوس وجود کا آغاز ہے کہ ابتداء میں انہوں نے یہودی مذہب کو اپنے شوم مقاصد کے لئے استعمال کیا، حالانکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان پر لعنت بھیجی تھی، یہ ٹولہ فرعونی مشرکین کے طور پر اپنی اقلیت کی حفاظت کرتے ہوئے ہمیشہ برائیوں کو پھیلانے میں پیش پیش رہا تاکہ شیطانی حیلوں کے ذریعے دوسرے الہی مذاہب کی اکثریت پر اپنا تسلط جما سکے۔

اس لئے پہلے یہودی مذہب کے عقائد کو متنازعہ بنانے کے ساتھ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو بھی گمراہ کیا اور پھر غیر قانونی رقوم جمع کر کے یورپ کی منڈیوں اور معاشی مراکز پر قبضہ کیا۔

توحید پرست مذاہب کے پیروکاروں میں اختلاف پیدا کرنے کے لیے ان کا پہلا اقدام صلیبی جنگیں تھیں۔ انہوں نے ان صلیبی جنگوں کو عیسائیت میں رخنہ اندازی کے لیے استعمال کرتے ہوئے عیسائی مذہب میں "نائٹس آف سلیمانز ٹیمپل" کے عنوان سے صلیبی جنگجوؤں کے ایک گروپ کو بھرتی کرکے منافقت کا پہلا بیج بویا۔ 

ہیکل کے کارپردازوں نے اپنے شاگردوں کو مقدس جام کے وارث اور عیسیٰ مسیح (علیہ السلام) کی اولاد کے عنوان سے پورے یورپ میں پھیلایا اور سیاسی طور پر فری میسنری اور کبالہ جیسے خفیہ اور پراسرار فرقوں کی بنیاد رکھی۔ 

صہیونیت کی خوف ناک ثقافتی یلغار

عیسائیت پر صیہونی سوچ کا دوسرا اور شاید سب سے بھاری ثقافتی حملہ 16ویں صدی کے اوائل میں "پروٹسٹنٹ ازم" کے نام سے ہوا اور عیسائیت مہلک فرقہ بندی کی بھینٹ چڑھ گئی۔
 عیسائی نظریات کو صیہونی تعلیمات اور پروٹسٹنٹ ازم کے ساتھ ملا کر ایک جارحانہ شاخ کے طور پر صیہونی سوچ کے حامل بہت سے سوڈو عیسائی فرقوں کو قلب یورپ میں پھیلا کر لاکھوں نئے پیروکاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

صییونیت نے کیتھولک ازم کی فکر کو رد کرتے ہوئے پروٹسٹنٹ ازم کی مادیت پسندانہ اور سیکولر سوچ کو اپنے پیروکاروں میں پھیلایا اور انسان کو اعلیٰ الٰہی مقاصد سے ہٹانے کے لیے دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی تاکہ ہیومن ازم کی چھتری تلے اپنے شوم مقاصد حاصل کر سکے۔

جدید صیہونیت کی تشکیل

15ویں صدی عیسوی میں، یہودیوں کو یورپی عیسائی تہذیب نے مسترد کر دیا اور انہیں بند علاقوں (یہودی بستیوں) میں رہنا پڑا۔ کیتھولک چرچ یروشلم کے سقوط اور بنی اسرائیل کے بکھر جانے کو خدا کی طرف سے ایک عذاب سمجھتا تھا جو مسیح کی مصلوب ہونے کی وجہ سے انہیں بھگتنا پڑا تھا، اس لیے اس نے یہودیوں کو یورپ سے نکالنے یا انہیں عیسائی بنانے کی کوشش کی، پرتگال اور اسپین جیسے ممالک میں ایسا کیا گیا۔

سولہویں صدی عیسوی: اس صدی میں مذہبی اصلاحی تحریک (پروٹسٹنٹ ازم) نے یہودی عیسائیت کو جنم دیا۔ 1533 میں پروٹسٹنٹ ازم کے بانی "مارٹن لوتھر" نے کتاب "مسیحا، ایک یہودی پیدا ہوا" لکھی اور یہودیوں کو خدا کی اولاد ہونے کا سہرا دیا اور عہد نامہ قدیم کو اعلیٰ ترین عیسائی عقائد کا حوالہ سمجھا۔ 1538 میں، جب انگلینڈ "ہنری II" کے حکم سے کیتھولک چرچ سے الگ ہوا، تو انگلینڈ میں مذہبی اصلاحات کی تحریک کے ساتھ ساتھ یہودی عیسائیت بھی پروان چڑھی۔

16ویں صدی میں، پروٹسٹنٹ کے پیروکاروں میں پیوریٹنزم فرقے کے ابھرنے کے ساتھ، تاریخ کے خاتمے کے لئے خدا کی مشیت کا عقیدہ یہودی عیسائیت کی طرف سے مذہبی تنازعات میں داخل ہو گیا۔

پیوریٹن کا خیال تھا کہ خدا کی تاریخ مسیح کی آمد اور خوش بختی کے ہزار سال کے آغاز سے ہی شروع ہوگی۔ دریں اثنا، دانیال نبی کی کتاب (عہد نامہ قدیم) اور یوحنا کے مکاشفات (عہدنامہ جدید) کی نئی تشریح کی گئی، جس کے مطابق، خوش بختی کے ہزار سالہ دنیا پر حکومت کرنے کے لئے مسیح کی واپسی سے پہلے، دو عظیم قدم اٹھائے جائیں گے:

1: صیہون (یروشلم) میں یہودیوں کی واپسی اور عظیم اسرائیل کا قیام

 2: آخری زمانے کی جنگ یا نبرد آرماگڈون 

انگلینڈ کا آخر الزمانی مشن

 16ویں صدی میں انگلستان نے مسیح کے آنے اور دنیا پر حکومت کرنے سے پہلے یہودیوں کو یروشلم بھیجنے کے لئے یہ مقدس مشن شروع کیا۔ یہ مشن نشاۃ ثانیہ کے دوران غیر معمولی طور پر فعال تھا۔ "جان لاک" (لبرل ازم کے بانی)، "ژاں جیک روسو" (سوشل کنٹریکٹس کے فلسفی)، "کانٹ" اور "جان ملٹن" سبھی اسرائیل کے قیام کے خیال کے حامی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائی صیہونیت کی تحریک یہودی صیہونیت سے کئی صدیاں پہلے قائم ہوئی تھی۔

17ویں صدی میں، پیوریٹنوں کی امریکہ ہجرت کے ساتھ ہی یہ صیہونی تحریک اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ وہ اس سوچ کو اپنے ساتھ دریافت شدہ امریکہ لے گئے اور اسے ’’جدید اسرائیل‘‘ کا نام دیا۔ انہوں نے عبرانی میں عبادت کی اور تورات کی داستانوں سے اپنے بچوں کے ناموں کا انتخاب کیا۔ امریکہ میں ان کی پہلی کتاب "Psalms of David" شائع ہوئی۔ ریڈ انڈینز کے قتل عام کے ساتھ ہی امریکہ انگلستان میں شروع ہونے والی یہودی عیسائی تحریک کے لیے ایک عظیم ملک بن کر ابھرا۔

18ویں صدی میں، پیوریٹنز اور کیلونسٹ اور پھر مشنریوں کی یلغار کے ساتھ، بنیاد پرست عیسائی سوچ جو یہودیوں کی فلسطین واپسی پر مبنی تھی، تاریخ کے اختتام اور مسیح کی آمد کے ساتھ نام نہاد مقدس ہزاریہ کے آغاز کے طور پھیلی اور امریکی ثقافت اور نظریات میں ایک خاص حیثیت اختیار کر گئی۔

سرزمین موعود قبرص یا یوگنڈا میں نہیں

19ویں صدی میں امریکی عیسائی صیہونیت نے فلسطین میں یہودی آباد کاری کے منصوبے پر سبقت حاصل کی۔ اس تحریک کے رہنما "ولیم بلیک اسٹون" (پروٹسٹنٹ عیسائی مشنری) نے "ہیریسن" (اس وقت کے امریکی صدر) کو ایک خط لکھا کہ وہ یہودیوں کی فلسطین واپسی کے لیے مداخلت کرے۔ بلیک سٹون کی پوزیشن ہرزل (یہودی صیہونیت کے بانی) سے بھی زیادہ شدید موئثر رہی تھی، جس نے قبرص یا یوگنڈا میں یہودیوں کے لیے ایک قومی زمین بنانے کا خیال پیش کیا تھا۔ بلیک اسٹون نے تھیوڈور ہرزل کو تورات کی ایک کاپی بھیجی جس میں صفحات نشان زد ہوئے تھے اور اسے یاد دلایا کہ تورات نے فلسطین کو منتخب لوگوں کے لئے سرزمین موعود کے طور پر نامزد کیا ہے۔

20 ویں صدی میں، اس خیال کو امریکی عوام کے مذہبی عقائد اور ثقافت میں ادارہ جاتی شکل دی گئی اور اسے ریاستوں کے منصوبوں میں داخل کیا گیا۔

لہٰذا، نیا مغرب نہ صرف الٹرا ماڈرن اور سرمایہ دارانہ مغرب ہے، بلکہ تاریخ کے خاتمے کے لئے تورات کے نظریات کے ساتھ ایک مضبوط مذہبی رجحان ہے جس کے بنیادی مراکز ریاستہائے متحدہ اور انگلستان ہیں، جو اس کا پرچار کر رہے ہیں۔ اس بنیاد پرستی کا اثر یورپ میں کیتھولک عیسائیت میں پر زیادہ ہوا ہے۔

انجیلی بشارت کے اصول اور بنیادیں اس عقیدے پر مبنی ہیں کہ امریکہ کو مسیح نے آرماگڈون کی آخری مقدس جنگ میں دجال یا اینٹی کرائسٹ کے خلاف لڑنے کے لیے بنایا تھا۔ اس لیے وہ ہمیشہ ایک مضبوط اور طاقتور امریکہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور فوجی بجٹ میں اضافے کی حمایت کرتے ہیں۔

وہ دنیا کے مختلف خطوں میں امریکہ کی فوجی موجودگی کو ضروری سمجھتے ہیں اور اپنی مذہبی تقاریر میں اس بات کا پرچار کرتے ہیں کہ شیطانی طاقتیں امریکہ کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ 

ایوینجلیکلز نے پچھلی دہائی میں بڑے پیمانے پر پروپیگنڈے کے ذریعے اپنے پیروکاروں میں آرماگڈون کی جنگ کے لیے گہرے جذبات پیدا کیے ہیں، اور وہ ہر اس شخص کو جو ان سے متفق نہیں ہے، مذہب مخالف، مسیح مخالف، اور ضد اخلاق قرار دیتے ہیں۔

امریکہ کی قیادت میں جنگ آرماگڈون 

ان کا ماننا ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے یہودی صہیونی تیسری صدی عیسوی کے آغاز میں یروشلم کی دو مساجد الاقصیٰ اور صخرہ کو تباہ کر دیں گے اور اس کی جگہ عظیم معبد تعمیر کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس دن یہودی یروشلم میں مسجد اقصیٰ اور صخرہ مسجد کو تباہ کر دیں گے اس دن امریکہ اور انگلستان کی قیادت میں آرماگڈون کی آخری جنگ شروع ہو جائے گی۔ اس تناظر میں، انجیلی بشارت کے مذہبی رہنماؤں نے امریکہ میں پچھلی دہائیوں میں بہت سی کتابیں شائع کی ہیں اور انہیں "آرماگڈون کتابوں" کا نام دیا جاتا ہے۔

امریکہ میں جنونی انجیلی بشارت کے تقریباً 120 ملین پیروکار ہیں اور وہ دونوں بڑی امریکی پارٹیوں، یعنی ریپبلکن اور ڈیموکریٹس میں بااثر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، آج یہودی صیہونیوں کے ساتھ مل کر، انہوں نے ریاستہائے متحدہ امریکہ پر مکمل قبضہ کر لیا ہے۔

ریاستہائے متحدہ امریکہ اور دیگر پروٹسٹنٹ ممالک میں، 1500 عیسائی فرقے جو آرماگڈون جنگ پر عقیدہ رکھتے ہیں وسیع پیمانے پر پروپیگنڈہ کر رہے ہیں اور اپنے مطلوبہ مسیحا کے ظہور کو تیز کرنے کے ہدف سے حقیقت میں پوری دنیا کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ ان کے عقائد کے مطابق، دنیا کی مکمل تباہی کے بعد ہی مسیحا آئے گا۔ مغربی مصنفین ان عقائد کو "مقدس دہشت گردی" کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔

نئی صلیبی جنگ

آج امریکی خارجہ پالیسی کے اصول امریکہ کی مخالفت کرنے والے ممالک کے خلاف "قبل از وقت حملے" پر مبنی ہیں۔ 

11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد امریکی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہانہ بنا کر اسلام اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ امریکہ کے زیادہ تر سیاست داں، جو انتہاپسند مشنری  سمجھے جاتے ہیں، بظاہر عیسائیت کی تحریف شدہ اور جعلی بائبل کی پیشین گوئیوں کو عملی جامہ پہنانے کے مقصد سے، تیسرے ہزارئے کے آغاز میں اسلام کے خلاف ایک نئی صلیبی جنگ شروع کرچکے ہیں اور اس بہانے سے پوری اسلامی دنیا پر مکمل قبضہ کرنے تک اس جنگ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

امریکی سیاستدان 21ویں صدی کو ’’امریکہ کی صدی‘‘ سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکہ میں "کونسل سینٹر فار کنسلٹنٹس" نے عالم اسلام پر مکمل تسلط کے بارے میں مربوط مطالعات اور تحقیق کی جس کا نعرہ "جمہوریت سے سلطنت تک" ہے۔

 امریکی حکومت اور عالمی صیہونیت کا اصل ہدف اسلام اور مسلمانوں کی مکمل تباہی ہے جو عالم اسلام پر مکمل تسلط جما کر اپنی اسلام دشمن اقدار کو دنیا کے مسلمانوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

آج عالمی صہیونیت کے انسانی معاشرے، عالم اسلام اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جرائم کو پہچاننا اور اس کی نشاندہی کرنا پرعزم مسلمان دانشوروں اور محققین کے بنیادی اور اہم فرائض میں سے ایک ہے۔

News ID 1923968

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha