مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل ہے کہ کیا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراء (س) کی پیدائش بعثت کے پانچویں سال میں ۲۰/ جمادی الثانی کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد حضرت محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجة الکبریٰ ہیں ۔ جناب خدیجہ وہ عظیم خاتون ہیں جو پیغمبر اسلام پر سب سے پہلے ایمان لائیں اور پوری زندگی آپ کا دفاع کرتی رہیں۔نبی کریم (ص) نے فرمایا: جس نے فاطمہ (س)کو اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی اور جس نے مجھے اذيت پہنچائی اس نے خدا کو اذيت پہنچائی اور خدا کو اذیت پہنچانے والا جہنیمی ہے۔ پیغمبر اسلام (ص)کی پارہ جگر کانام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا ، سیدۃ النساء العالمین ، راضیۃ ، مرضیۃ ، شافعۃ، صدیقہ ، طاھرہ ، زکیہ، خیر النساء اور بتول ہیں۔ اورآپ کی مشہور کنیت ام الآئمۃ ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ہے، یعنی اپنے باپ کی ماں یہ لقب اس بات کا ترجمان ہے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاھتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ زہرا کے متعدد فضائل بیان کرتے ہوئےفرمایا: فاطمہ کی رضا سے الله راضی ہوتا ہے اور آپ کی ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتاہے۔سیدہ عالم کی فضیلت میں پیغمبر کی اتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جتنی حضرت علی علیہ السّلام کے سوا کسی دوسری شخصیت کے لیے نہیں ملتیں .
فاطمہ زہرا (س) اور پیغمبر اسلام
حضرت فاطمہ زہرا (س)کے اوصاف وکمالات اتنے بلند تھے کہ ان کی بنا پر رسول اسلام (ص) حضرت فاطمہ زہرا (س)سے محبت بھی کرتے تھے اور عزت بھی۔ محبت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ زہرا (س)سے رخصت ہوتےتھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ زہرا (س) سے ملنے کے لئے جاتے تھے .
اور عزت و احترام کانمونہ یہ ہے کہ جب فاطمہ(س) ان کے پاس آتی تھیں تو آپ تعظیم کو کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے . رسول خدا (ص) کا یہ برتاؤ فاطمہ زہرا (س) کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ نہ تھا . اور بعض صحابہ نے اسی فاطمہ کو خون کے آنسو رلایا اور اس کے بچوں کی شہادت کی راہیں ہموار کیں۔
حضرت فاطمہ زہرا ء سلام اللہ علیھا کی عظمت و فضیلت میں پیغمبر (ص) کی اتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جتنی حضرت علی علیہ السّلام کے سوا کسی دوسری شخصیت کے لیے وارد نہیں ہوئيں: آنحضور نے فرمایا: فاطمہ (س) کی رضا سے اللہ راضی ہوتا ہے اور فاطمہ (س) کی ناراضگی سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔
مندرجہ ذيل حدیثیں علماء اسلام کے نزدیک متفقہ حیثیت رکھتی ہیں:
"آپ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔ "
" ایما ن لانے والی عوتوں کی سردار ہیں ."
" تما م جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں "
" آپ کی رضا سے الله راضی ہوتا ہے اور آپ کی ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتا ہے "
" جس نے آپ کو ایذا دی اس نے رسول کو ایذا دی"
آپ کا تبصرہ