مہر خبررساں ایجنسی کی اردو سروس نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی (ع) ہاشمی خاندان کے وه پہلے فرزند ہیں جن کے والد اور و الده دونوں ہاشمی ہیں ۔ آپ کے والد ابو طالب بن عبد المطلب بن ھاشم ہیں اور ماں فاطمه بنت اسد بن ھاشم ہیں ۔ھاشمی خاندان قبیلہ قریش میں اور قریش تمام عربوں میں اخلاقی فضائل کے لحاظ سے مشھور و معروف تھے ۔ جواں مردی ، دلیری ، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ھاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی (ع) کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے ۔ جب حضرت علی (ع) کی ولادت کا وقت قریب آیا تو فاطمه بنت اسد کعبه کے پاس آئیں اور آپ نے اپنےجسم کو اس کی دیوار سے مس کر کے عرض کیا:
پروردگارا ! میں تجھ پر، تیرےنبیوں پر، تیری طرف سے نازل شده کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، اپنے جد ابراھیم (ع) کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ہوں ۔
پروردگارا ! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچه کے حق کا واسطه جو میرے شکم میں موجود ہے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما ۔
ابھی ایک لمحہ بھی نہیں گزرا تھا که کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار ، عباس بن عبد المطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافته ہوئی، فاطمه بنت اسد کعبہ میں داخل ہوئیں اور دیوار دوباره مل گئی ۔ فاطمه بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مھمان رہیں اور تیره رجب سن ۳۰/ عام الفیل کو خانہ کعبہ کے اندر حضرت علی کی ولادت ہوئی ۔ ولادت کے بعد جب فاطمه بنت اسد نے کعبہ سے باہر آنا چاہا تو دیوار دو باره شگافتہ ہوئی، آپ کعبه سے باہر تشریف لائیں اور فرمایا :" میں نے غیب سے یہ پیغام سنا ہے که اس بچے کا ” نام علی “ رکھنا “ ۔
حضرت علی علیہ السّلام کے امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول اکر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ " علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں" .کبھی یہ فرمایا کہ " میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں" . کبھی یہ فرمایا: " آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والے علی ہیں" . کبھی یہ فرمایا: " علی کومجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی ". کبھی یہ فرمایا: " علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ہوتا ہے" ۔
کبھی یہ فرمایا: " وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں " ۔ یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کاخطاب ملا. عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجدکے صحن میں کھلنے والے، سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا . جب مہاجرین وانصار میں بھائی اور اخوت کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر اسلام نے اپنا بھائی قرار دیا۔ اور سب سے اخر میں غدیر خم کے میدان میں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح میں تم سب کا حاکم، ولی اور سرپرست ہوں اسی طرح علی علیہ السّلام، تم سب کے سرپرست، ولی اور حاکم ہیں۔ یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام مسلمانوں نے علی علیہ السّلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر نے علی علیہ السّلام کی ولی عہدی اور جانشینی کااعلان کردیا ہے .
تاریخ اسلام کے مطابق عبدالرحمن بن ملجم مرادی نے نبی کریم (ص) کے بعد کائنات کی عظيم ہستی کے قتل کا عہد کرلیا اور سن۴۰ ہجری قمری میں انیسویں رمضان المبارک کی شب کو کچھ لوگوں کے ساتھ مسجد کوفہ میں آکر بیٹھ گیا ۔ اس شب حضرت علی (ع) اپنی بیٹی کے گھر مھمان تھے اور صبح کو واقع ہونے والے حادثہ سے با خبر تھے۔ لہذا جب اس مسئلہ کو اپنی بیٹی کے سامنے بیان کیا تو ام کلثوم نے کہا کہ کل صبح آپ کسی کو مسجد میں بھیج دیجئے ۔
حضرت علی (ع) نے فرمایا : قضائے الٰھی سے فرار نہیں کیا جا سکتا۔ پھر آپ نے کمر کے پٹکے کو کس کر باندھا اور اس شعر کو گنگناتےہوئے مسجد کی طرف روانہ ہوگئے ۔
" اپنی کمر کو موت کے لئے کس لو ، اس لئے کہ موت تم سے ملاقات کرے گی ۔
اور جب موت تمھاری تلاش میں آئے تو موت کے ڈر سے نالہ و فریاد نہ کرو "۔
حضرت علی (ع) نماز کے سجده میں تھے کہ ابن ملجم نے آپ کے فرق مبارک پر تلوار کا وار کیا۔ آپ کے سر سے خون جاری ہوا آپ کی داڑھی اور محراب خون سے رنگین ہو گئے۔ اس حالت میں حضرت علی (ع) نے فرمایا : ” فزت و رب الکعبه “ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ پھر سوره طہ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی :
" ہم نے تم کو خاک سے پیدا کیا ہے اور اسی خاک میں واپس پلٹا دیں گے اور پھر اسی خاک سے تمھیں دوباره اٹھائیں گے " ۔
حضرت علی (ع) اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی لوگوں کی اصلاح و سعادت کی طرف متوجہ تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور تمام مسلمانوں سے اس طرح وصیت فرمائی :
" میں تمہیں پرہیز گاری کی وصیت کرتا ہوں اور وصیت کرتا ہوں کہ تم اپنے تمام امور کو منظم کرو اور ہمیشه مسلمانوں کے درمیان اصلاح کی فکر کرتے رہو ۔ یتیموں کو فراموش نہ کرو ۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرو ۔ قرآن کو اپنا عملی نصاب قرار دو ،نماز کی بہت زیادہ قدر کرو، کیوں کہ یہ تمھارے دین کا ستون ہے " ۔
آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کا عالم یہ تھا کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لا یا گیا، اورآپ نے دیکھا کہ اس کاچہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، تو آپ کو اس پر بھی رحم آگیا۔ آپنے اپنے دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ ہمارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا، جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا، اگر میں صحتیاب ہو گیا تو مجھے اختیار ہے کہ چاہے اسے سزا دوں یا معاف کردوں اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور آپ نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگاناکیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے ۔ اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا کیوں کہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔
حضرت علی علیہ السّلام دو روز تک بستر بیماری پر کرب و بےچینی کے ساتھ کروٹیں بدلتے رہے۔ اخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور ۲۱رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی روح جسم سے پرواز کر گئ .حضرت امام حسن و امام حسین علیہما السّلام نے تجہیزو تکفین کے بعد آپ کے جسم اطہر کو نجف اشرف میں سپرد خاک کردیا۔
حضرت علی علیہ السلام تاریخ بشریت کے سب سے عظیم اور مظلوم شہید ہیں ان کی ولادت کعبہ میں ہوئی اور ان کی شہادت محراب مسجد میں ہوئی ، وہ اللہ تعالی کے گھر سے آئے اور اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیکر اللہ تعالی کے گھر سے ہی واپس چلے گئے۔
آپ کا تبصرہ