مہر خبررساں ایجنسی نے بی بی سی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ آسٹریلیا کے بدنام زمانہ وہابی دہشت گرد محمد العمر کی بیوی نے بیرون ملک دہشت گردی کی معاونت کرنے کا اعتراف کر لیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق فاطمہ العمر کو اس سال مئی میں سڈنی کے ایئرپورٹ پر اس وقت ایک بین الاقوامی پرواز پر سوار ہونے سے روک دیا گیا تھا جب ان کے قبضے سے نقدی، پوشیدہ سامان اور ادویات برآمد ہوئی تھیں۔
انھوں نے بیرون ملک دہشت گردی پھیلانے میں معاونت کے الزام کے خلاف درخواست دی تھی تاہم پیر کو عدالت کی مختصر سماعت کے دوران انھوں میں بیرونِ ملک مخالفانہ سرگرمیوں کے ارادے سے دہشت گردی کی معاونت کرنے کا اعتراف کرلیا۔
عدالتی دستاویزات میں فاطمہ العمر کی اپنے شوہر محمد العمر کے درمیان پیغامات کے تبادلے کی تفصیلات موجود ہیں۔ جن کے مطابق فاطمہ عمر کی منت کرتی ہیں کہ وہ علاج کے لیے گھر لوٹ آئیں۔
عمر جو گولی لگنے کے باعث زخمی ہو گئے تھے، جواب میں فاطمہ سے کہتے ہیں کہ وہ بچوں کے اور اپنے پاسپورٹ تیار کریں تاکہ وہ رقہ میں اکٹھے ہوسکیں۔
محمد العمر نے 2013 میں دولت اسلامیہ کے ہمراہ لڑنے کے لیے شام اور پھر عراق کا سفر کیا۔ بعد میں ان کے ایک اور آسٹریلوی ساتھی خالد شروف بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔
یہ دونوں ساتھی اس وقت لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے جب انھوں نے سوشل میڈیا پر کٹے ہوئے انسانی سروں کے ساتھ اپنی تصاویر جاری کیں۔ان میں سے ایک تصویر میں شروف کا سات سالہ بیٹا ایک شامی فوجی کا سر ہاتھ میں لیے کھڑا ہے۔آسٹریلوی حکومت کے ایک حالیہ اندازے کے مطابق اس وقت تقریباً 120 آسٹریلوی شہری عراق اور شام میں دولت اسلامیہ اور دیگر جنگجو تنظیموں میں شامل ہیں۔
آپ کا تبصرہ