13 نومبر، 2025، 8:43 AM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

قازقستان کی ابراہیمی معاہدے میں شمولیت: صہیونی حکومت کی تنہائی ختم کرنے کی غیر متوقع حکمت عملی

قازقستان کی ابراہیمی معاہدے میں شمولیت: صہیونی حکومت کی تنہائی ختم کرنے کی غیر متوقع حکمت عملی

آستانہ نے عالمی طاقتوں کے نئے کھیل میں خود کو ایک آزاد اور مؤثر کھلاڑی کے طور پر مستحکم کرنے کے لیے معاہدے میں شمولیت کا اعلان کیا، جسے اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی تنہائی ختم کرنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: مشرق وسطی میں طاقتوں کی نئی صف بندی کے سلسلے میں جاری سفارتی ہلچل اور لا محدود قیاس آرائیوں کے درمیان، وسطی ایشیا کے قلب سے ایک غیر متوقع حیرت انگیز خبر نے تمام حساب کتاب الٹ پلٹ کر دیے۔ جب سب کی نظریں ریاض، دمشق اور جکارتہ پر مرکوز تھیں تاکہ ابراہیمی معاہدے کے اگلے رکن کا تعین کیا جا سکے، اسی دوران آستانہ نے شمولیت کی تیاری کا اعلان کر کے خطے کے سٹریٹجک سکون کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ تبدیلی محض ایک خبر نہیں بلکہ ایک بیان تھی؛ ایسا بیان جسے اسرائیلی تجزیہ کاروں، بشمول آمیت سگال، نے عام معمول کی عام کاری کے طور پر نہیں بلکہ ایران مخالف سیکیورٹی ڈھانچے میں قزاقستان کی رسمی شمولیت کے طور پر تشریح کیا۔

آستانہ کا سیاسی جوا: روس اور چین سے علیحدگی اور مغربی کی صفوں میں شمولیت

قازقستان کا ابراہیمی معاہدے کو قبول کرنے کا فیصلہ محض ایک ردعمل یا علامتی اقدام نہیں ہے، بلکہ ایک حساب شدہ جغرافیائی و سیاسی حکمت عملی ہے جس کے کئی مقاصد ہیں۔ آستانہ اس اقدام کے ذریعے روایتی طور پر روس اور چین کے اثر و رسوخ سے خود کو آزاد کرنا چاہتا ہے۔ یہ معاہدہ ان کے لیے مغربی سرمایہ کاری کو راغب کرنے، اہم معدنی صنعتوں میں ٹیکنالوجی حاصل کرنے اور سب سے اہم بات یہ کہ واشنگٹن سے ایک سیکیورٹی انشورنس حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اس فیصلے کا بے مثال استقبال کرتے ہوئے آستانہ کو محض ایک نیا رکن نہیں بلکہ امریکہ کے لیے ایک اسٹریٹجک پل قرار دیا، تاکہ روس اور چین کے اثر و رسوخ کو محدود کیا جاسکے۔ لہذا جو بظاہر مذہبی رواداری دکھانے اور اسرائیل کی بین الاقوامی تنہائی کو ختم کی کوشش لگتا ہے، درحقیقت ایک جرات مندانہ جیوپولیٹیکل حکمت عملی ہے جس کے ذریعے قازقستان اپنی جگہ کو عالمی طاقت کے نئے نظام میں دوبارہ متعین کرنا چاہتا ہے۔ اس اقدام پر ناقدین اسے غزہ میں اسرائیل کے جرائم کو جائز قرار دینے والا سودا قرار دیتے ہیں۔

آستانہ کا اقدام صہیونی حکومت کی عالمی تنہائی ختم کی کوشش

صہیونی حکومت کے لیے جو غزہ اور لبنان میں دو سال مسلسل جرائم کے بعد عالمی سطح ایک بند غار میں تنہا ہوگئی ہے، یہ پیش رفت ایک حیات بخش سرنگ کے مترادف ہے۔ وسطی ایشیا کے ایک بڑے مسلم اکثریتی ملک کا شامل ہونا صرف ایک سفارتی کامیابی نہیں بلکہ صہیونی حکومت کے بدنما چہرے کو سفید کرنے اور ایک جھوٹی تصویر پیش کرنے کا ایک طاقتور پروپیگنڈا ذریعہ بھی ہے۔ اس اقدام سے ٹرمپ حکومت کو بھی اپنی پہلی مدت کی خارجہ پالیسی کو دوبارہ زندہ کرنے اور ابراہیمی معاہدے کو ایک منفرد سفارتی کامیابی کے طور پر دکھانے کا موقع ملے گا۔

عملی طور پر، اس الحاق سے موجودہ تعلقات میں نمایاں تبدیلی شاید نہ آئے لیکن علامتی طور پر تل ابیب کی یوریشیا کے وسائل تک رسائی آسان ہوگی اور ایران مخالف محاذ مزید مضبوط ہوگا۔ فلسطینی مزاحمت کے نقطہ نظر سے، یہ اقدام اخلاقی ناکامی کے سوا کچھ نہیں؛ ایک شرمناک سودا جس میں قازقستان نے کسی بھی حقیقی فائدے کے بغیر اپنے وقار کو اس ڈوبتے ہوئے صہیونی حکومت کو بچانے کے لیے بیچ دیا ہے۔

حاصل سخن

دنیا اب ابہام کے دور سے نکل کر طاقت کے نئے مراکز کے زمانے میں داخل ہورہی ہے۔ قازقستان جیسے ممالک بڑے فیصلے کررہے ہیں تاکہ صرف ایک پیروکار ملک نہ رہیں بلکہ نئے عالمی نظام میں آزاد اور خودمختار طاقت کے طور پر جگہ بناسکیں۔ آستانہ کا ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونا، اس بات کا اعلان ہے کہ وہ نئے عالمی کلب کا حصہ بننا چاہتا ہے۔

ایران کے لیے صحیح راستہ یہ ہے کہ نہ تو خاموشی اختیار کرے اور نہ ہی جذباتی ردِعمل دے، بلکہ ایک سمجھدار حکمتِ عملی اپنائے۔ تہران کو چاہیے کہ قازقستان کے ساتھ تیزی سے اقتصادی، تجارتی اور توانائی کے شعبوں میں ایسے تعلقات قائم کرے جو دونوں کو ایک دوسرے پر انحصار کرنے پر مجبور کریں۔ اس طرح اگر قازقستان کبھی دشمنی کی طرف مائل ہو، تو اس کے لیے خود بھاری نقصان کا باعث بنے۔ یہ ہوشمندانہ طریقہ ہی اس خطرناک کھیل کو قابو میں رکھنے کا واحد راستہ ہے۔

ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ جو ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھاتے ہیں، ان کے ساتھ جارحانہ یا بالکل خاموش رویہ اپنانے سے صرف قومی مفادات کو نقصان پہنچا ہے اور کشیدگی بڑھی ہے۔ اس تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ایران قازقستان کے ساتھ تعلقات کو عقل مندی سے سنبھالے اور اسرائیل کی رکاوٹوں کو روکنے کے لیے محتاط پالیسی اختیار کرے۔

News ID 1936449

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha