مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پہلی بار نظام فیصلہ سازی میں ایک اہم تبدیلی دیکھی گئی ہے جس میں چین اور روس نے رسمی طور پر ایران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے کی قانونی حیثیت اور اس پر مبنی قرارداد کے اثرات پر سوال اٹھایا ہے۔ دونوں ملکوں نے اعلان کیا ہے کہ ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کی کوشش قانونی اعتبار سے درست نہیں۔
سیکورٹی کونسل کے مستقل ارکان کے درمیان پیدا ہونے والا اختلاف، قرارداد کے خاتمے اور چین و روس کے موقف نے عالمی سطح پر طاقت کے نئے توازن کی شروعات کی ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک (فرانس، برطانیہ اور جرمنی) ایران پر پابندیاں ایک طرفہ طور پر جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، جسے ماہرین بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے منافی قرار دے رہے ہیں۔
قرارداد، جو ایران کے معاہدے کی قانونی بنیاد اور پابندیوں کے خاتمے کے شیڈول کی ضمانت تھی، امریکہ کے یکطرفہ انخلا اور یورپ کی عدم تعمیل کے بعد اپنا اثر کھوچکی ہے۔ ایران کے مطابق، دیگر ممالک کی ذمہ داری سے گریز کے بعد تہران پر کوئی قانونی یا سیاسی پابندی باقی نہیں رہی۔ چین اور روس کی حمایت سے ایران کے موقف کو تقویت ملی ہے اور اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر موجود مغربی ممالک کے اثر و رسوخ کی بنیاد کمزور ہوگئی ہے۔ ماہرین اس تبدیلی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں عالمی طاقتوں کے نئے توازن کے آغاز کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
عالمی فیصلوں میں مغرب کا کردار زوال پذیر
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں حالیہ اختلاف کو محض ایک تکنیکی تنازعہ کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ یہ عالمی نظام میں تشکیلاتی تبدیلی کی واضح علامت ہے، جو یوکرین اور غزہ میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد ابھری ہے۔
عالمی نظام اب یک قطبی نہیں رہا اور بین الاقوامی سطح پر پابندی جیسے تصورات اب صرف مغرب کے قبضے میں نہیں ہیں۔ ماسکو اور بیجنگ کے مؤقف نے عالمی اداروں پر مغربی ممالک کے یک طرفہ اثر کو کمزور کردیا ہے اور طاقت کے توازن کو نئے سرے سے متعین کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔ اس تبدیلی سے ایک ایسا عالمی نظام جنم لینے کا امکان پیدا ہوا ہے جو متعدد طاقتوں اور بین الاقوامی انصاف پر مبنی ہو۔
ایران نے ان حالات کے جواب میں چند اہم نکات پر زور دیا ہے:
اول، بین الاقوامی معاہدے تب ہی معنی رکھتے ہیں جب مفادات اور ذمہ داریوں کا توازن برقرار رہے۔
دوم، امریکہ کے انخلا اور یورپی ممالک کی غفلت کے سبب جوہری معاہدہ عملی طور پر اپنی افادیت کھو چکا ہے۔
سوم، قرارداد 2231 کے اختتام کے بعد ایران نے عالمی تعلقات میں فعال اور متوازن کردار کے لیے ایک نئے مرحلے کا آغاز کیا ہے۔ تہران کے مطابق، مغرب صرف ایک ختم شدہ قرارداد کے ظاہری وجود کے ذریعے دباؤ اور پابندیاں جاری نہیں رکھ سکتا، کیونکہ یہ نہ صرف قانونی طور پر بے بنیاد ہے بلکہ سیاسی اثر و رسوخ بھی کھوچکی ہے۔
مستقبل کا عالمی منظر: سلامتی کونسل اور نئے عالمی نظام کی راہ
حالیہ تبدیلیوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قانونی حیثیت اور اثر و رسوخ پر بنیادی سطح پر سوال اٹھایا ہے۔ جب کونسل کے مستقل ارکان اپنے سابقہ فیصلوں کی قانونی حیثیت پر متفق نہیں ہوتے، تو اس ادارے کی روایتی طاقت بھی کمزور ہوجاتی ہے۔ یہ اختلاف نئے بین الاقوامی تعاون اور سیکورٹی کے نظام کی تشکیل کے لیے مقدمہ فراہم کرسکتا ہے، جو اقوام متحدہ کے روایتی ڈھانچے سے باہر ہوگا۔ اس صورت حال میں اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے موقع ہے کہ وہ برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے کثیر الجہتی اتحادوں کے ذریعے عالمی نظام کے نئے ڈھانچے کی تشکیل میں زیادہ فعال کردار ادا کرے، جہاں طاقت کا توازن اور بین الاقوامی انصاف مغربی ممالک کے یک طرفہ اثر و رسوخ کی جگہ لے لے۔
حالیہ دنوں میں جوہری معاہدے اور اقوام متحدہ کی قرارداد 2231 کے حوالے سے جو پیش رفت ہوئی ہے، وہ صرف ایک جوہری مسئلہ نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے درمیان توازن میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔ سلامتی کونسل میں اس معاملے پر اختلافات نے ایک نئے دور کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اب عالمی قانونی حیثیت اور اثر و رسوخ صرف واشنگٹن یا لندن تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ مشرق و مغرب کے درمیان طاقت کا توازن نئے انداز میں تشکیل پا رہا ہے۔ یہ تبدیلی عالمی سیاست میں گہرے اثرات مرتب کرسکتی ہے۔
آپ کا تبصرہ