مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، دو سال کی مسلسل مزاحمت کے بعد حماس نے عسکری اور سفارتی میدان میں تاریخی کامیابی حاصل کرلی اور اسرائیل کو غزہ پر مکمل قبضے کے عزائم سے دستبردار ہونا پڑا۔
اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے درمیان جاری مذاکرات سے واضح ہوتا ہے کہ غزہ کے عوام کی ہمہ گیر مزاحمت، حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کی ثابت قدمی، اور مزاحمتی محاذ کے اتحادیوں کی بھرپور حمایت نے اسرائیل کو یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ نہ تو حماس کو عسکری طور پر شکست دی جاسکتی ہے اور نہ ہی غزہ پر مکمل قبضہ ممکن ہے۔
گزشتہ دو سالوں کے دوران اسرائیل کو عسکری، سیاسی، اقتصادی اور عوامی رائے کے محاذوں پر شکست کا سامنا رہا۔ صہیونی حکومت نے اپنا بنیادی مقصد یعنی حماس کا خاتمہ اور غزہ پر مکمل قبضہ ترک کردیا اور امریکہ سے ثالثی کے ذریعے مذاکراتی عمل شروع کرنے کی درخواست کی۔
یہ وہی منظرنامہ ہے جو ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے دوران سامنے آیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود کہا کہ ایران پر امریکی حملے کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان امن مذاکرات تیز ہو گئے۔ ایران پر حملے کی ناکامی نے اسرائیل کو مجبور کیا کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کرے۔ اگر وہ ایران پر جیت جاتے، تو شاید وہ طاقت کے زور پر فلسطینیوں کو دبانے کی کوشش جاری رکھتے اور امن کی بات نہ کرتے۔
حماس کی عسکری فتح اس وقت سامنے آئی جب اس نے طوفان الاقصی آپریشن کے دوران اسرائیلی فوجی ٹھکانوں پر پیشگی حملہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی جہاد، حزب اللہ، انصار اللہ اور عراقی مزاحمتی گروہوں کی عسکری حمایت نے اسرائیل کے اہم بندرگاہی مراکز جیسے ایلات اور عسقلان کو مکمل طور پر غیر فعال کردیا، اور صہیونی حکومت کے اقتصادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا۔
میدان جنگ میں مجاہدین کے ہاتھوں بے بس اسرائیل نے امریکہ کی غیر متزلزل حمایت کے ساتھ انتقام کے طور پر نہتے شہریوں پر حملے کیے، بچوں اور خواتین کی نسل کشی کی، اور 65 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کرکے عالمی سطح پر نفرت کا نشانہ بن گئی۔ بالآخر دو سالہ جنگی جرائم کے بعد شرم الشیخ مذاکرات میں اسرائیل نے غزہ سے انخلاء پر آمادگی ظاہر کردی۔
اس معاہدے کے تحت حماس 250 فلسطینی قیدیوں اور 1,700 غزہ کے باشندوں کو رہا کروانے میں کامیاب ہوگی، جنہیں جنگ کے آغاز سے اسرائیلی قابض افواج نے گرفتار کر رکھا تھا۔ معاہدے کے پہلے مرحلے میں اسرائیل کے قبضے میں موجود 20 زندہ فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے گا۔ غزہ کے مظلوم عوام کے لیے روزانہ 400 امدادی ٹرک بھیجنے کا منصوبہ بھی معاہدے میں شامل ہے، جس کی تعداد آئندہ مراحل میں بتدریج بڑھائی جائے گی۔ حماس نے نہ صرف اپنے عسکری یونٹس کو غیر مسلح کرنے سے انکار کیا، بلکہ اپنے بیان میں فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور آزاد ریاست کے قیام کے لیے اپنے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔
فلسطینی عوام کی عظیم مزاحمت، میدان میں مجاہدین کی جرات و بہادری اور دنیا بھر کے عوام کی حمایت نے حماس کو مذاکراتی میز پر نفسیاتی برتری عطا کی، جہاں اس نے مزاحمت کے اہداف کا بھرپور دفاع کیا۔
اب عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی حمایت جاری رکھے اور صہیونی قابضین کو معاہدے پر مکمل عملدرآمد کا پابند کرے۔
حماس اور مزاحمتی محاذ نے نہ صرف میدان جنگ میں فتح حاصل کی بلکہ سفارتی سطح پر بھی کامیابی حاصل کی۔ اس موقع پر ان عظیم شہداء کی یاد کو خراج تحسین پیش کرنا لازم ہے جنہوں نے مزاحمت کو استحکام بخشا اور دشمن کو شکست دی جن میں شہید سید حسن نصر اللہ، شہید یحیی السنوار اور شہید اسماعیل ہنیہ جیسے نام شامل ہیں۔
آپ کا تبصرہ