4 اکتوبر، 2025، 4:36 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

ٹرمپ کے امن منصوبے کی 11 خامیاں اور حماس کی ذمے دارانہ حکمت عملی

ٹرمپ کے امن منصوبے کی 11 خامیاں اور حماس کی ذمے دارانہ حکمت عملی

ٹرمپ کے امن منصوبے کی خامیوں کو اجاگر کر کے حماس نے نہ صرف اسرائیل اور امریکہ کو دفاعی پوزیشن پر مجبور کیا بلکہ فلسطینی قومی اتفاق رائے کو ترجیح دی۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ میں جاری انسانی بحران اور اسرائیلی حملوں کے تناظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک امن منصوبہ پیش کیا، جسے نتن یاہو-ٹرمپ پلان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد جنگ بندی اور خطے میں استحکام قائم کرنا بتایا گیا، تاہم بین الاقوامی قانون کے ماہرین اور فلسطینی تجزیہ کاروں نے اس میں متعدد قانونی و اخلاقی خامیوں کی نشاندہی کی۔

منصوبے میں فلسطینیوں کے حق خودارادیت، آزاد ریاست کے قیام، جنگی نقصانات کی تلافی، اور مظالم پر اسرائیل سے جواب طلبی جیسے بنیادی مسائل کو نظرانداز کیا گیا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کو بھی منصوبے میں کوئی مؤثر کردار نہیں دیا گیا۔

ان حالات میں حماس نے نہایت ہوشمندانہ اور ذمہ دارانہ ردعمل دیا، جس میں اس نے قیدیوں کے تبادلے اور حکومت کی منتقلی جیسے فوری معاملات پر مؤقف واضح کیا، جبکہ غزہ کے مستقبل اور غیر مسلح ہونا جیسے بڑے قومی امور کو تمام فلسطینی دھڑوں کے اتفاق اور وسیع مذاکرات سے مشروط کردیا۔

سیاسی امور کے ماہرین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ سے متعلق امن منصوبے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں 11 بنیادی قانونی خامیاں موجود ہیں، جو نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں بلکہ خطے میں مزید بیچینی اور عدم استحکام کو جنم دے سکتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ فلسطینیوں پر ہر قیمت پر امن مسلط کرنے کی کوشش ہے، جو درحقیقت ناانصافی، تشدد اور مستقبل میں مزید بحرانوں کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ اس کے باوجود حماس نے اس منصوبے میں موجود ابہامات سے ہوشمندانہ فائدہ اٹھایا ہے اور سفارتی دباؤ کو امریکہ اور اسرائیل کی طرف منتقل کردیا ہے۔

ماہرین نے واضح کیا کہ ٹرمپ کا مجوزہ منصوبہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی 2024 کی مشاورتی رائے سے بھی متصادم ہے، جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ فلسطینی علاقوں میں اپنی غیرقانونی موجودگی ختم کرے۔

سیاسی امور کے ماہرین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ سے متعلق امن منصوبے میں 11 بنیادی قانونی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ منصوبہ نہ صرف بین الاقوامی قانون سے متصادم ہے بلکہ فلسطینی عوام کے حقوق کو نظرانداز کرتا ہے۔

امن منصوبے میں پیش کردہ نکات میں شامل ہیں:

حق خودارادیت کی ضمانت نہیں

منصوبے میں فلسطینیوں کے حق خودارادیت، خاص طور پر ایک آزاد ریاست کے قیام کی کوئی واضح ضمانت موجود نہیں۔ اس حق کو مبہم شرائط سے مشروط کیا گیا ہے، جن میں غزہ کی تعمیرنو، فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات اور اسرائیل-فلسطین مذاکرات شامل ہیں۔

عبوری حکومت میں فلسطینیوں کی عدم نمائندگی

منصوبے میں تجویز کردہ عبوری حکومت فلسطینی عوام کی نمائندہ نہیں اور ان کے حق خودارادیت کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اس میں نہ کوئی واضح معیار دیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی ٹائم فریم، جس کے تحت مکمل فلسطینی خودمختاری حاصل ہو۔ اس کے علاوہ امن کونسل کی نگرانی امریکی صدر کے ماتحت ہوگی، جو نہ اقوام متحدہ کے دائرہ اختیار میں ہے اور نہ ہی شفاف بین الاقوامی کنٹرول میں، علاوہ ازیں امریکہ اسرائیل کا کھلا حامی ہے۔

بین الاقوامی فورس کی غیر شفافیت

منصوبے میں تجویز کردہ بین الاقوامی استحکام فورس فلسطینی عوام یا اقوام متحدہ کے کنٹرول میں نہیں ہوگی، جس سے اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نئی قبضہ نما موجودگی قائم ہوسکتی ہے۔

ہتھیاروں سے دستبرداری کی یکطرفہ شرط

غزہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں کی گئی، اور اگر یہ دائمی ہو تو اسرائیلی حملوں کے مقابلے میں غزہ کو غیر محفوظ بناسکتی ہے۔ دوسری جانب، اسرائیل کو غیر مسلح کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، حالانکہ وہ فلسطینیوں کے خلاف بین الاقوامی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے اور خطے میں امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال چکا ہے۔

انتہا پسندی کا یکطرفہ ذکر

منصوبے میں انتہا پسندی کے خاتمے کی بات صرف غزہ کے تناظر میں کی گئی ہے، جبکہ اسرائیلی زیر قبضہ علاقوں میں فلسطینیوں اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز جذبات، انتہا پسندانہ سوچ اور نسل کشی کی کھلی ترغیب صہیونی بیانیے کا حصہ ہیں، جسے نظرانداز کیا گیا ہے۔

اقتصادی منصوبے میں استحصال کا خدشہ

منصوبے میں تجویز کردہ اقتصادی ترقیاتی منصوبہ اور خصوصی اقتصادی زون غیر ملکی عناصر کو فلسطینی وسائل کے غیر قانونی استحصال کا موقع فراہم کرسکتے ہیں، جس سے مقامی خودمختاری متاثر ہوسکتی ہے۔

جنگی نقصانات کی عدم تلافی

اسرائیل اور وہ عناصر جو غزہ میں غیر قانونی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، ان پر فلسطینیوں کو جنگی نقصانات کی تلافی کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں کی گئی، جو انصاف کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

قیدیوں کی رہائی میں عدم مساوات

منصوبے میں تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کی ضمانت دی گئی ہے، جبکہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی محدود تعداد تک ہی رکھی گئی ہے، جو غیر متوازن اور امتیازی رویہ ظاہر کرتا ہے۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی

منصوبے میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف بین الاقوامی جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کوئی جواب طلبی یا عدالتی کارروائی کا ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی انصاف کی فراہمی کی کوئی ضمانت دی گئی ہے۔

اہم مسائل سے چشم پوشی

ٹرمپ کا منصوبہ اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے، بالخصوص مشرقی بیت المقدس میں غیر قانونی بستیوں کے قیام، سرحدوں کے تعین، پناہ گزینوں کی واپسی اور معاوضے جیسے بنیادی مسائل پر خاموش ہے۔

اقوام متحدہ کا کردار ختم

منصوبے میں اقوام متحدہ، جنرل اسمبلی یا سلامتی کونسل، اور خاص طور پر فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے ادارے اونروا کے لیے کوئی کردار نہیں رکھا گیا، حالانکہ یہ ادارے فلسطینیوں کی مدد اور تحفظ کے لیے ناگزیر ہیں۔

حماس کی امریکی جنگ بندی منصوبے پر مدبرانہ اور ذمہ دارانہ ردعمل

فلسطینی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی امور کے ماہر فراس یاغی نے کہا ہے کہ حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نتنیاہو کے پیش کردہ جنگ بندی منصوبے پر نہایت مدبرانہ اور ذمہ دارانہ ردعمل دیا ہے، جس نے سفارتی بحث کا رخ بدل کر دباؤ ان دونوں رہنماؤں پر ڈال دیا ہے۔

یاغی کے مطابق، حماس نے اپنی ذمہ داریوں تک محدود رہتے ہوئے قیدیوں کے تبادلے اور حکومت کی منتقلی جیسے معاملات پر واضح مؤقف اپنایا، جبکہ غزہ کے مستقبل اور ہتھیاروں سے دستبرداری جیسے بڑے قومی مسائل کو تمام فلسطینی دھڑوں کے باہمی اتفاق اور وسیع مذاکرات کے دائرے میں رکھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ حماس نے اپنے جواب کو صرف "ہاں" یا "نہ" تک محدود نہیں رکھا بلکہ اہم اور فیصلہ کن امور کو دیگر فلسطینی جماعتوں کے لیے کھلا چھوڑا تاکہ اجتماعی فیصلہ سازی ممکن ہو۔

یاغی نے کہا کہ حماس نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ ایک ذمہ دار، مذاکراتی صلاحیت رکھنے والی اور حل کی تلاش میں کوشاں سنجیدہ تحریک ہے۔ اس نے جواب اس انداز میں دیا ہے کہ کوئی بھی اسے یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے میں رکاوٹ ڈالنے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتا۔

News ID 1935751

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha