مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: برلن ایک طرف اسرائیل کا سب سے بڑا حامی بننے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری طرف خود کو انسانی حقوق کا محافظ اور مشرقِ وسطیٰ میں غیرجانبدار ثالث کے طور پر پیش کرتا ہے۔ تاہم غزہ کی جنگ کے دوران تل ابیب کو مسلسل اسلحہ فراہم کرنے سے جرمنی کی یہ تضاد بھری پالیسی پہلے سے زیادہ نمایاں ہو گئی ہے۔
غزہ میں قحط، محاصرہ اور عام شہریوں کے قتل عام کے مناظر نے جرمنی کے اندر بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کو جنم دیا۔ یہی دباؤ بالآخر برلن کو اسلحہ برآمدات روکنے پر مجبور کرنے والا اصل عامل ثابت ہوا۔ اس فیصلے کو تین زاویوں سے سمجھا جا سکتا ہے:
1۔ قانونی اور بین الاقوامی ذمہ داریاں
جرمنی معاہدۂ تجارت اسلحہ (ATT) اور جنیوا کنونشنز کا رکن ہے، جو واضح طور پر کسی بھی ملک کو ایسے ہتھیار برآمد کرنے سے روکتے ہیں جن سے عام شہریوں کا قتل یا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ممکن ہوں۔ غزہ پر جاری حملوں اور اقوام متحدہ کی رپورٹس کے باوجود اسرائیل کو اسلحہ دینا جرمنی کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی صریح خلاف ورزی بنتا۔ برلن کا فیصلہ اگرچہ دیر سے آیا، لیکن ناگزیر تھا۔
2۔ داخلی سیاست اور عوامی دباؤ
جرمنی کی حکومت برسوں سے اسرائیل کی حمایت کو اپنی "تاریخی ذمہ داری" قرار دیتی رہی ہے، لیکن غزہ کی موجودہ صورتحال نے یہ بیانیہ کمزور کر دیا۔ سول سوسائٹی، بائیں بازو کی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں، کلیساؤں اور علمی اداروں نے کھل کر حکومت کی پالیسی کے خلاف آواز اٹھائی۔ فلسطینی بچوں کی بھوک سے موت اور شہری آبادی پر بمباری کے مناظر نے احتجاجات کی شدت کو اس حد تک بڑھا دیا کہ حکومت داخلی سطح پر اپنی ساکھ بچانے کے لیے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی۔
3۔ خارجہ پالیسی اور جرمنی کا تضاد
جرمنی کی خارجہ پالیسی ایک کھلا تضاد پیش کر رہی ہے۔ ایک طرف وہ اسرائیل کی تاریخی حمایت کا دعویٰ کرتا ہے اور دوسری طرف انسانی حقوق کے علمبردار اور مشرق وسطیٰ میں ثالث بننے کی خواہش رکھتا ہے۔ اسرائیل کو اسلحہ کی ترسیل اس تضاد کو ناقابل برداشت حد تک عیاں کر چکی تھی۔ اب برلن نے اپنے تاثر کو بہتر بنانے کے لیے برآمدات روکی ہیں، لیکن یہ حقیقت چھپائی نہیں جا سکتی کہ برسوں سے جرمنی اسرائیل کی جنگی مشین کا حصہ رہا ہے۔
یہ اقدام یقینی طور پر برلن اور تل ابیب کے تعلقات میں نئی دراڑ ڈال سکتا ہے۔ اسرائیل اسے "خیانت" یا تاریخی حمایت میں کمی سے تعبیر کرے گا، جس کے بعد تل ابیب مزید واشنگٹن اور دیگر عسکری اتحادیوں پر انحصار کرے گا۔ جرمنی دوسری جانب غیر فوجی اور سفارتی مدد کے ذریعے تعلقات کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش کرے گا۔
نتیجہ
جرمنی کا فیصلہ بظاہر بین الاقوامی قوانین کے تحت درست ہے، لیکن حقیقت میں یہ عوامی دباؤ اور سماجی احتجاجات کا نتیجہ ہے۔ یہ اقدام اس امر کی علامت ہے کہ حتیٰ کہ یورپ میں اسرائیل کے قریبی ترین اتحادی بھی اب غزہ کی انسانی تباہی پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ اسلحہ برآمدات کا رک جانا تعلقات کے خاتمے کے مترادف نہیں، مگر یہ واضح اشارہ ہے کہ یورپ میں سیاسی فضا تبدیل ہو رہی ہے اور تل ابیب کے لیے جنگ جاری رکھنا عالمی سطح پر پہلے سے کہیں زیادہ مہنگا ثابت ہوگا۔
آپ کا تبصرہ