5 جولائی، 2025، 1:47 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

ایرانی میزائل حملوں میں اسرائیلی سائنسی اور سائبر مراکز تباہ، صہیونی برتری خاک میں مل گئی

ایرانی میزائل حملوں میں اسرائیلی سائنسی اور سائبر مراکز تباہ، صہیونی برتری خاک میں مل گئی

ایرانی میزائلوں اور ڈرونز نے اسرائیل کے علمی، صنعتی اور سائبر انفراسٹرکچر کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بناکر خطے میں طاقت کا توازن بدل دیا۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: گذشتہ دنوں مغربی ایشیا ایک انتہائی شدید اور ہمہ گیر جنگ کا مشاہدہ کرچکا ہے، جو کئی دہائیوں کے بعد اپنی نوعیت کی منفرد جھڑپ تھی۔ اس بار یہ جنگ اسرائیلی جارحیت کے جواب میں ایران کی طرف سے وعدۂ صادق 3 نامی آپریشن کی صورت میں نمودار ہوئی، جس میں ایران نے مکمل دفاعی حق کے اصول کے تحت 500 سے زائد اسمارٹ میزائل اور 1000 خودکار حملہ آور ڈرون صہیونی علاقوں پر داغے۔ اس بار کا ایرانی ردعمل ماضی کے آپریشنز سے مختلف تھا۔ وعدہ صادق 1 اور 2 میں فوجی اہداف کو نشانہ بنایا گیا تھا، لیکن اس بار حملوں کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے جدید صنعتی پیداواری مراکز، توانائی کی تنصیبات، تحقیقی ادارے اور کمانڈ مراکز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

آتش جنگ کے بجھنے کے بعد جب تباہ کاریوں کے مناظر واضح ہوئے تو یہ بات سامنے آئی کہ سب سے زیادہ نقصان اسرائیلی ٹیکنالوجی کے شعبے کو پہنچا ہے۔ یہ وہی شعبہ ہے جو صہیونی طاقت کا نہ صرف اقتصادی سہارا بلکہ سلامتی کا ستون بھی سمجھا جاتا ہے۔

اس رپورٹ میں، مہر نیوز نے عبرانی زبان کے معتبر ذرائع، بین الاقوامی میڈیا اور دستیاب سرکاری ڈیٹا کی بنیاد پر یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کن کن اہداف کو نشانہ بنایا گیا؟ ان حملوں سے اسرائیلی سائنسی اور تکنیکی سرگرمیوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ یہ نقصان اسرائیلی ٹیکنالوجی کے مستقبل کے لیے کس حد تک مہلک ثابت ہوسکتا ہے؟

وایزمین انسٹیٹیوٹ کو بھاری نقصان

ایران کے میزائل حملوں کے دوران اسرائیل کے حساس سائنسی اور ٹیکنالوجی مراکز کو غیر معمولی نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیلی میڈیا نے وایزمین انسٹیٹیوٹ اور دیگر تحقیقاتی مراکز پر ہونے والے حملوں کی تصدیق کی ہے اور ان حملوں کو علمی و عسکری مغز پر ضرب قرار دیا ہے۔

اسرائیلی اخبار ہارٹز نے 17 جون اور ٹائمز آف اسرائیل نے 29 جون کو اپنی علیحدہ رپورٹس میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران کے میزائل حملوں میں وایزمین انسٹیٹیوٹ براہ راست نشانہ بنا ہے۔

یہ انسٹیٹیوٹ "رحووت" شہر میں واقع ہے اور اسے اسرائیل کی سب سے اہم سائنسی و تحقیقاتی مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ اس حملے میں تقریبا 45 تجربہ گاہیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں جبکہ 20 سے زائد دیگر تجربہ گاہیں شدید متاثر ہوئیں۔ ماہرین کے مطابق، ان حملوں کے نتیجے میں مجموعی مالی نقصان 570 ملین ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔

وایزمین انسٹیٹیوٹ اسرائیلی دفاعی صنعت کے لیے سائنسی تحقیق فراہم کرنے والا اہم ادارہ ہے۔ یہ ادارہ فزکس، حیاتیاتی ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں میں بنیادی تحقیق کرتا رہا ہے۔ یہی تحقیقات بعد ازاں اسرائیلی عسکری نظام، ڈرون ٹیکنالوجی، فضائی حملوں کی ہم آہنگی، الیکٹرانک وارفیئر اور خفیہ جوہری پروگرام کے سلسلے میں استعمال کی جاتی رہی ہیں۔

اسی وجہ سے وایزمین انسٹیٹیوٹ کو اسرائیل کا "سائنسی-نظامی دماغ" قرار دیا جاتا ہے۔

بن گوریان یونیورسٹی اور گاو-یام سائبر پارک: سائبر نیٹ ورک پر کاری ضرب

ٹائمز آف اسرائیل نے اپنی 25 جون کی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ 19 جون کو ایران نے بئرشبع شہر پر شدید میزائل حملہ کیا۔ اس حملے کا ہدف بن گوریان یونیورسٹی اور اس سے متصل سائبر ٹیکنالوجی پارک تھے۔ 

رپورٹ کے مطابق، بن گوریان یونیورسٹی کی چھ تجربہ گاہیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں جبکہ نو دیگر تجربہ گاہوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ، یونیورسٹی کی تیس عمارتیں بھی شدید متاثر ہوئی ہیں۔

اسی علاقے میں واقع "گاو-یام نگب ٹیک پارک" کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے، جو اسرائیلی فوج، موساد اور دیگر سیکیورٹی اداروں سے وابستہ کئی بڑی سائبر کمپنیاں چلاتی ہیں۔ 

تجزیاتی ویب سائٹ "The Cradle" نے یکم جولائی کو رپورٹ دی کہ اس پارک میں کام کرنے والی کئی کمپنیوں نے شدید تباہی کی وجہ سے اپنی سرگرمیاں مکمل طور پر معطل کر دی ہیں۔

عبرانی ذرائع کے مطابق، ان حملوں کے نقصانات کا اندازہ تاحال مکمل نہیں کیا جاسکا، لیکن ابتدائی تخمینے کے مطابق یہ نقصان سینکڑوں ملین شیکل تک پہنچ سکتا ہے۔

اسرائیلی یونیورسٹیوں کی انجمن کے صدر، ڈینیل خامویتس نے روزنامہ ہارٹز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پوری میڈیکل فیکلٹی کو نقصان پہنچا ہے۔ ہمیں اب تک یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ تدریس کو دوبارہ کیسے شروع کیا جائے۔ چھ تجربہ گاہیں مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں، اور دھماکوں کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس کے اثرات سڑک پار موجود عمارتوں تک پہنچے۔ یونیورسٹی کے 60 میں سے 30 عمارتوں کو نقصان پہنچ چکا ہے۔ایرانی میزائلوں نے اسرائیلی دفاعی و صنعتی ڈھانچے کی بنیادیں ہلا دیں۔ 

تل ابیب یونیورسٹی اور کریات گات انڈسٹریل زون کو شدید نقصان

ریسرچ ویب سائٹ "دی کرینڈل" کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے میزائل حملوں میں صرف وایزمین انسٹیٹیوٹ اور گاو-یام ٹیکنالوجی پارک ہی متاثر نہیں ہوئے، بلکہ تل ابیب یونیورسٹی بھی ان حملوں کی زد میں آئی ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں یونیورسٹی کے طلباء کے ہاسٹلز اور تجربہ گاہوں کے شعبے کو واضح نقصان پہنچا ہے۔

اسی طرح، "تہران ٹائمز" نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کریات گات کے صنعتی علاقے میں موجود چپ (microchip) بنانے والی فیکٹریوں اور اسرائیلی فوجی صنعت سے وابستہ کئی تنصیبات بھی حملوں کی زد میں آئیں۔ ان حملوں کی شدت اتنی تھی کہ کئی پیداواری لائنوں کو عارضی طور پر بند کرنا پڑا۔

رافائل کمپنی کی تنصیبات پر بھی براہ راست حملے

شمالی شہر حیفا میں واقع اسرائیلی دفاعی کمپنی رافائل کی فیکٹریاں بھی ایرانی میزائلوں کا براہ راست نشانہ بنیں۔ جنگ کے دوران رافائل کے کئی پیداواری یونٹ ناکارہ ہو گئے ہیں اور دفاعی پیداوار کا عمل متاثر ہوا۔

26 جون کو معروف اقتصادی ویب سائٹ بلومبرگ نے اسرائیلی ٹیکس اتھارٹی کے سربراہ شای آہارونوویچ کا بیان نقل کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ایرانی حملوں سے اسرائیلی سرزمین پر براہ راست مالی نقصان کی مقدار تین ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔

انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ اس جنگ کے نتیجے میں چالیس ہزار سے زائد افراد کی جانب سے حکومت کو مالی نقصانات کے دعوے موصول ہوئے ہیں۔ اسی طرح اسرائیلی وزیر خزانہ بزالل اسموتریچ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اس جنگ پر آنے والا مجموعی خرچ بارہ ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔

اگرچہ حتمی اعداد و شمار تاحال مرتب نہیں کیے گئے، لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ جنگ اسرائیلی معیشت کے لیے ایک بڑی آزمائش بن گئی ہے۔ اس معیشت کو پہلے ہی گزشتہ بیس مہینوں کے دوران غزہ، لبنان اور شام کے محاذوں پر حماس اور حزب اللہ کے ساتھ جاری وسیع جھڑپوں کے باعث شدید مالی دباؤ کا سامنا تھا۔

ایرانی آپریشن وعدۂ صادق 3 نے خطے میں طاقت کے توازن کا نظریہ بدل دیا۔ جون 2025 کی بارہ روزہ جنگ کو خطے میں Deterrence کے تصور کی ازسرنو تعریف کا نقطۂ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب نہ صرف روایتی فوجی برتری کو چیلنج کیا گیا، بلکہ ٹیکنالوجی پر مبنی دفاع کا تصور بھی گہرے سوالات کی زد میں آگیا۔

اسلامی جمہوری ایران نے نہایت ہوشمندانہ حکمت عملی کے تحت اپنے اسمارٹ میزائل نظام، منظم ڈرون نیٹ ورک اور دشمن کے اسٹرکچرل انفراسٹرکچر سے متعلق درست معلومات کو بروئے کار لا کر ان اہداف کو نشانہ بنایا، جنہیں ماضی میں خطرے سے محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔

ایران نے اس جنگ میں تعلیمی ادارے، تحقیقاتی مراکز، ٹیکنالوجی پارکس اور سائبر انفراسٹرکچر جیسے اہداف کو نشانہ بنایا، جو صہیونی حکومت کی سخت اور نرم طاقت کی بنیاد سمجھے جاتے تھے۔ ان مراکز کو نہایت دقت سے منتخب کیا گیا اور انہیں بھاری نقصان پہنچایا گیا۔

ایرانی حملے اور دشمنوں کے لئے پیغامات

ان حملوں نے ایک واضح پیغام دیا کہ اب ڈیٹرینس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ کوئی ملک کسی روایتی فوجی حملے کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہو، بلکہ آج کی دنیا میں اصل ڈیٹرینس اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کوئی ملک دشمن کے اسمارٹ انفراسٹرکچر، سائنس و ٹیکنالوجی کے محرک نظام، اور فیصلہ سازی و کمانڈ نیٹ ورک کو مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

یہی وجہ ہے کہ ایران کا یہ اقدام محض ایک حملے کا جواب نہیں تھا، بلکہ یہ ایک نئی حکمت عملی کے تحت خطے میں طاقت اور سلامتی کے توازن کا بدلاؤ بھی تھا۔

اس حکمت عملی میں ٹیکنالوجی نہ صرف ہدف بنی، بلکہ خود ایک مؤثر جنگی ہتھیار کے طور پر بھی استعمال ہوئی۔ ایران نے اس آپریشن کے ذریعے دنیا کو یہ بھی دکھا دیا کہ وہ صہیونی حکومت کی اسٹرٹیجک گہرائی تک مؤثر حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یعنی وہ اہداف جو ہمیشہ محفوظ سمجھے جاتے تھے، اب بھی میزائلوں اور ڈرونز کی زد میں ہیں۔

دوسری طرف، ایران کی جانب سے سائنسی و صنعتی مراکز کو بطور جائز فوجی ہدف منتخب کرنا، عالمی سطح پر ایران کی دفاعی منطق کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ پیغام بھی اس اقدام میں پنہاں تھا کہ اگر صہیونی جارحیت جاری رہی، تو صرف دفاعی تنصیبات ہی نہیں بلکہ اس کے علمی اور ٹیکنالوجی کے ستون بھی مکمل طور پر خطرے میں ہوں گے۔

News ID 1934109

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha