24 جنوری، 2025، 6:27 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

فلاڈیلفیا اور نیتساریم سے صیہونی فوج کا انخلا؛ غزہ میں اسرائیل کی رسواکن شکست

فلاڈیلفیا اور نیتساریم سے صیہونی فوج کا انخلا؛ غزہ میں اسرائیل کی رسواکن شکست

حماس کے ساتھ جنگ ​​بندی معاہدے میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کی فلاڈیلفیا اور نیٹساریم کوریڈور سے دستبرداری کو سب سے بڑی ناکامیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی گروپ:
 غزہ میں 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی جنگ اب تقریباً 15 ماہ بعد عارضی طور پر اختتام کو پہنچی ہے۔

 جنگ بندی معاہدے کی ایک اہم ترین شق فلاڈیلفیا اور نیٹساریم کراسنگ سے اسرائیلی فوج کا انخلاء ہے۔

 فلاڈیلفیا کراسنگ

 فلاڈیلفیا کوریڈور رفح کراسنگ پر مصر کے ساتھ غزہ کی سرحد کے ساتھ تقریباً 14 کلومیٹر لمبی اور 100 میٹر چوڑی پٹی ہے۔

 2005 میں غزہ سے صیہونیوں کے انخلاء کے بعد اس علاقے کو سویلین سرحدی زون قرار دیا گیا جو بحیرہ روم سے کرم شالوم کراسنگ تک پھیلا ہوا ہے۔

 1979 کے معاہدے کے مطابق، تل ابیب کو اس راہداری میں اقوام متحدہ کے مبصرین کے ساتھ چار انفنٹری بٹالین، فوجی تنصیبات اور فیلڈ فورٹیفیکیشن سمیت محدود مسلح افواج تعینات کرنے کی اجازت تھی۔ ان فورسز کا اعلان کردہ ہدف مصر کے راستے غزہ میں ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنا تھا۔

 غزہ میں حالیہ جنگ کے آغاز کے تین ماہ بعد جنوری 2024 میں صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس علاقے پر دوبارہ قبضے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’فلاڈیلفیا کا کنٹرول ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ "کوئی دوسرا انتظام اس کی ضمانت نہیں دے سکتا۔

 اسرائیل نے مئی 2023 میں رفح کراسنگ اور فلاڈیلفیا کوریڈور کے فلسطینی اطراف کا کنٹرول سنبھال لیا۔ کچھ عرصہ بعد صہیونیوں نے اس راہداری کے فلسطینی حصے پر بھی قبضہ کر لیا۔

نیتساریم کوریڈور

 نیتساریم کوریڈور 6 کلومیٹر طویل ہے اور غزہ کے وسط سے گزرتی ہے۔ یہ راہداری صہیونی فوج نے حالیہ جنگ کے دوران بنائی تھی اور یہ غزہ شہر کے ساتھ مقبوضہ علاقوں کی سرحد سے بحیرہ روم تک پھیلی ہوئی ہے۔  صہیونیوں نے اس گزر گاہ میں کئی فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں جنہیں وہ غزہ کے شمال اور جنوب کے درمیان فلسطینیوں کی نگرانی اور کنٹرول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ 

یہ علاقہ فلسطینی شہری پناہ گزینوں کے لیے ٹرانزٹ پوائنٹ ہے۔ حال ہی میں صیہونی اخبار ہاریٹز کی طرف سے شائع کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی افواج نے یہاں فلسطینیوں کو ان کی شناخت اور وابستگی کی تصدیق کیے بغیر متعدد بار من مانے طریقے سے قتل کیا ہے۔

راہداریوں سے متعلق صیہونی حکومت کا طرز عمل

 ان دونوں راہداریوں پر قبضے کے بعد، نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ حکومت دونوں راہداریوں اور رفح کراسنگ پر فوجی کنٹرول برقرار رکھے گی، اور ان مطالبات کو جنگ بندی کے مذاکرات میں شامل کیا۔

 تاہم حالیہ جنگ بندی معاہدے کے مطابق صیہونی افواج جنگ بندی کے بائیسویں دن سے غزہ سے انخلاء شروع کر دیں گی۔ معاہدے کی رو سے صیہونی غزہ کی پٹی کے مرکز سے بالخصوص نیٹصارم کے محور سے سرحد کے قریب ایک علاقے تک پیچھے ہٹ جائیں گے اور فوجی تنصیبات کو مکمل طور پر ہٹا دیں گے۔

جنگ بندی معاہدے میں صیہونیوں کو کن شکستوں کا سامنا کرنا پڑا؟

 1- تل ابیب کو غزہ پر قبضے کی پالیسی میں سب سے بڑی سکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ استنبول یونیورسٹی کے عالمی امور کے ڈائریکٹر سامی العریان کا خیال ہے کہ صہیونی اس عرصے کے دوران غزہ کے تمام حصوں پر قبضہ کیے بغیر اس پوائنٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔

2- تل ابیب کی ایک اور ناکامی "مکمل فتح تک مسلسل فوجی دباؤ کی حکمت عملی" کی ناکامی ہے۔ جنگ کے آغاز سے اور خاص طور پر اکتوبر 2024 کے بعد، قابض حکام نے واضح طور پر اعلان کیا کہ ان کی کوششیں "مکمل فتح تک مسلسل فوجی دباؤ پر مبنی ہیں۔ لیکن انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

 3- صیہونی حکومت کی ایک اور ناکامی غزہ کے شمالی اور جنوبی حصوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے میں تھی۔ 

درحقیقت جنگ کے آخری مہینوں میں تل ابیب نے حماس کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کی پوری کوشش کی، خاص طور پر شمالی غزہ کا محاصرہ کرکے اور باقی ماندہ لوگوں کو بھوکا مارا۔
 صہیونی فوج نے جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر بھی کئی بار بمباری کی اور بیت لاہیا اور بیت حانون پر اپنے حملوں میں اضافہ کیا۔ اس سب کے باوجود صہیونی اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ 

نتیجہ 

حماس اور صیہونی حکومت کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کی ایک اہم شق کا تعلق رفح کی سرحد پر واقع فلاڈیلفیا راہداری اور نیساریم کراسنف سے قابض افواج کے انخلاء سے ہے۔

  نیتن یاہو نے گزشتہ جنگ بندی مذاکرات میں ان علاقوں میں صیہونیوں کی پوزیشن کو مستحکم کرنے پر اصرار کیا تھا اور یہاں تک کہ غزہ سے انخلاء کی اقوام متحدہ کی قرارداد کی مخالفت کی تھی، لیکن نئے معاہدے میں وہ اپنے فیصلے سے دستبردار ہوگئے۔

ان دونوں راہداریوں سے پسپائی کے نتیجے میں قابض رژیم کو شدید ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں غزہ پر قبضے میں ناکامی، حماس پر مکمل فتح کی پالیسی میں ناکامی اور غزہ کے شمال اور جنوب کو الگ کرنے میں ناکامی سرفہرست ہیں۔

News ID 1929814

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha