10 جنوری، 2025، 8:31 AM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

ٹرمپ کی استکباری سوچ، گرین لینڈ اور پانامہ کینال سے لے کر کینیڈا اور میکسیکو تک پر قبضے کا خواب

ٹرمپ کی استکباری سوچ، گرین لینڈ اور پانامہ کینال سے لے کر کینیڈا اور میکسیکو تک پر قبضے کا خواب

نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ نے باقاعدہ صدر بننے سے پہلے ہی استکباری سوچ کے تحت گرین لینڈ اور پانامہ کینال پر قبضے اور کینیڈا اور میکسیکو کو امریکہ کے ساتھ ملحق کرنے کی خواہش ظاہر کردی ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک:نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں سال 20 جنوری کو تقریب حلف برداری کے بعد باقاعدہ امریکی صدر بنیں گے۔ حلف برداری سے پہلے ہی ٹرمپ کے توسیع پسندانہ عزائم اور بیانات کی وجہ سے عالمی سطح پر تشویش پھیل گئی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ دنوں ٹی وی چینل این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ہر سال کینیڈا کو 100 ارب ڈالر سے زیادہ کی سبسڈی دیتے ہیں۔ ہم میکسیکو کو 300 ارب ڈالر کی سبسڈی دیتے ہیں۔ اگر ہم انہیں سبسڈی دینا چاہتے ہیں، تو بہتر ہے کہ انہیں امریکہ کی ریاستوں میں شامل کردیں۔

اسی طرح ٹرمپ نے گرین لینڈ اور پاناما کینال کے حوالے سے اپنی توسیع پسندانہ خواہشات کا بھی اظہار کیا ہے۔ مبصرین ٹرمپ کے عزام کو سامراجی خیال کا اظہار قرار دے رہے ہیں۔ ان پالیسیوں سے ان علاقوں کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

ٹرمپ کی گرین لینڈ پر نظریں

ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں ایک بار پھر گرین لینڈ خریدنے کی ظاہر کرکے عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی۔ گرین لینڈ پر قبضے سے متعلق ان کے بیانات ان کی پہلی صدارتی مدت کے دوران سب سے متنازع موضوعات میں سے ایک تھے جس سے امریکہ کے اندر اور باہر وسیع پیمانے پر ردعمل سامنے آیا تھا۔ یہ تجویز جو پہلی بار 2019 میں پیش کی گئی، امریکہ کے جغرافیائی اور اسٹریٹجک اثر و رسوخ کو بڑھانے کے مقصد سے پیش کی گئی تھی۔ ٹرمپ کا خیال تھا کہ گرین لینڈ، اپنے قدرتی وسائل کی بہتات اور قطب شمالی میں اسٹریٹجک جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے امریکہ کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ان بیانات کے بعد ڈنمارک کی حکومت نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے کیونکہ گرین لینڈ پر اس کا قبضہ ہے۔ ڈینش حکام نے اس تجویز کو مضحکہ خیز قرار دیا اور واضح کیا کہ گرین لینڈ فروخت کے لیے دستیاب نہیں۔ علاوہ ازین گرین لینڈ کے عوام نے ٹرمپ کی اس تجویز کی سخت مخالفت کی ہے جن کو نیم خودمختاری حاصل ہے۔

بین الاقوامی قوانین کے تحت کسی دوسرے ملک کی زمین کا حصول یا خریداری حکومتوں کے مابین باہمی معاہدے اور علاقے کے عوام کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں۔ ٹرمپ کا مجوزہ اقدام بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی شمار ہوگا۔

گرین لینڈ کے حوالے سے ٹرمپ کے بیانات عملی نہ ہونے کے باوجود امریکہ اور ڈنمارک کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کر گئے۔ اس بحث نے امریکہ کی سفارتی ساکھ کو کمزور کیا اور یورپی اتحادیوں میں ٹرمپ کی غیر متوقع پالیسیوں کے حوالے سے تشویش کو بڑھا دیا۔

ٹرمپ کا پاناما کینال پر دوبارہ قبضے کا خواب

حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاناما کینال پر ملکیت کے دعوے نے اس تاریخی اور عالمی تجارتی راہداری کو دوبارہ خبروں کی زینت بنا دیا ہے۔ پاناما کینال کو دوبارہ قبضے میں لینے کا دعوی بھی ان کے پہلے صدارتی دور کے متنازع اور غیر عملی موقف میں شامل تھا۔ پاناما کینال جو اقتصادی اور اسٹریٹجک طور پر انتہائی اہمیت کی حامل ہے، صدر جمی کارٹر کے دور میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت 1999 کے بعد مکمل طور پر پاناما کی حکومت کے تحت آ گئی تھی۔ ٹرمپ نے اس کینال کو دوبارہ حاصل کرنے کا تصور پیش کرتے ہوئے امریکہ کی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ تاہم یہ دعویٰ نہ صرف قانونی طور پر ناقابل عمل ہے بلکہ پاناما کی قومی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔

پاناما کینال بین الاقوامی قوانین اور سرکاری معاہدوں کے تحت حکومت پاناما کی زیر ملکیت ہے اور اس پر دوبارہ قبضے کی کوئی بھی کوشش سنگین سفارتی بحران پیدا کر سکتی ہے۔ پاناما نہر کی دوبارہ ملکیت کے دعوے کا مطلب پاناما اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ایک عسکری یا سفارتی تنازع پیدا کرنا ہوگا جو امریکہ اور لاطینی امریکی ممالک کے تعلقات کو بری طرح نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس طرح کے اقدام سے عالمی رائے عامہ مشتعل ہوسکتی ہے اور امریکہ سیاسی طور پر تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے۔

علاوہ ازین ان بیانات کی وجہ سے چین کو خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کا موقع مل سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں چین نے لاطینی امریکہ، خاص طور پر پاناما کینال کے بنیادی ڈھانچے پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ نہر پر دوبارہ قبضے کی کوشش خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ مبصرین کے مطابق پاناما نہر کی دوبارہ ملکیت سے متعلق ٹرمپ کے بیانات صرف ایک قومی پرستی پر مبنی پروپیگنڈا ہیں جو عملی طور پر ناممکن ہیں۔ یہ خیال خارجی پالیسی کا ایک قابل عمل منصوبہ ہونے سے زیادہ عوامی جذبات کو ابھارنے کی کوشش ہے۔

شمالی پڑوسی کا 51ویں ریاست کے طور پر الحاق

ٹرمپ نے حال ہی میں اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل" پر کہا تھا کہ کینیڈا امریکہ کی51ویں ریاست بن سکتا ہے۔ انہوں نے ہر سال کینیڈا کو 100 ملین ڈالر سے زیادہ کی سبسڈی دینے کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بہت سے کینیڈین چاہتے ہیں کہ کینیڈا امریکہ کی51ویں ریاست بن جائے۔ اس سے انہیں ٹیکسوں اور دفاعی اخراجات میں بچت ہوگی۔ میرے خیال میں 51ویں ریاست کا تصور ایک بہترین خیال ہے۔

ٹرمپ کا کینیڈا کو امریکہ میں شامل کرنے کا بیان ان کے دیگر متنازع خیالات میں سے ایک ہے، جو زیادہ تر قومی پرستی کو ابھارنے اور امریکہ کی طاقت دکھانے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ تاہم عملی طر پر یہ بیان مکمل طور پر غیر حقیقی اور ناقابل عمل ہے۔کینیڈا، جو امریکہ کا قریبی اتحادی ہے، ایک آزاد سیاسی نظام اور منفرد قومی ثقافت کا حامل ہے۔ کینیڈا کو امریکہ میں شامل کرنے کی کسی بھی کوشش کو اس کی قومی خودمختاری کی واضح خلاف ورزی اور بین الاقوامی قوانین کے منافی سمجھا جائے گا۔ اس طرح کا اقدام کینیڈین حکومت کی شدید مخالفت، عالمی اتحادیوں کی حمایت اور عوامی احتجاج کا باعث بنے گا۔

کینیڈا امریکہ کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اور دونوں ممالک کے تعلقات میں کسی بھی قسم کی کشیدگی دونوں کی معیشت پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے درمیان قریبی سیاسی اور عسکری اتحاد، جیسے نیٹو میں تعاون اور سرحدی تحفظ اور باہمی فائدے پر مبنی تعلقات کے ذریعے برقرار ہیں۔ ٹرمپ کے بیانات اس اتحاد کو کمزور کر سکتے ہیں۔

داخلی طور پر بھی امریکہ میں اس قسم کی تجویز کو مخالفت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ زیادہ تر امریکی کسی نئے ملک کے الحاق سے پیدا ہونے والے معاشی اور سیاسی بوجھ کو اٹھانے کے خواہشمند نہیں، خاص طور پر ایسے ملک کے ساتھ جس کا سماجی اور فلاحی نظام مختلف ہو۔ لہٰذا کینیڈا کے الحاق سے متعلق ٹرمپ کے بیانات عملی طور پر ناممکن ہیں اور ان کے دو طرفہ تعلقات اور عالمی سطح پر امریکہ کی حیثیت کے لیے نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔

جنوبی پڑوسی کے الحاق کی متنازع تجویز

جیسا کہ تحریر کے آغاز میں ذکر کیا گیا، ٹرمپ نے تجویز دی کہ میکسیکو بھی امریکہ کی ریاستوں میں شامل ہو جائے۔ انہوں نے یہ متنازع خیال اقتصادی اور سیکورٹی مقاصد کے تحت پیش کیا اور دعوی کیا کہ یہ اقدام سرحدی حالات کو بہتر بنانے اور منشیات کے کارٹلز کے خلاف جنگ میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

میکسیکو کے امریکہ میں الحاق کے بارے میں ٹرمپ کا بیان ان کے سب سے متنازع خیالات میں شامل تھا، جس کا مقصد زیادہ تر عوامی جذبات کو ابھارنا اور قومی پرستی کو فروغ دینا تھا۔ میکسیکو ایک خودمختار ملک کے طور پر منفرد تاریخ اور ثقافت کا حامل ہے اور اس کی خودمختاری بین الاقوامی قوانین میں تسلیم شدہ ہے۔ اس ملک کو شامل کرنے کی کوئی بھی کوشش اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہوگی۔ یہ اقدام میکسیکو کی حکومت اور اس کے عالمی اتحادیوں اور عوام کی شدید مزاحمت کا باعث بنے گا۔

میکسیکو امریکہ کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی سنجیدہ تنازعے سے دو طرفہ تجارت اور خطے کی اقتصادی استحکام پر شدید منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں میکسیکو کے خلاف کسی عسکری اقدام یا تنازعے سے امریکہ کو بھاری عسکری اور سفارتی اخراجات اٹھانے پڑیں گے اور لاطینی امریکہ کے ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات بری طرح متاثر ہوں گے۔

ایسے بیانات امریکہ کی عالمی سفارتی حیثیت کو کمزور کرنے کا باعث ہونے کے علاوہ چین اور روس جیسے حریفوں کے لیے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے مواقع پیدا کریں گے۔ لہذا میکسیکو کے الحاق کے حوالے سے ٹرمپ کے بیانات کو حقیقت پسندانہ سوچ کے بجائے ایک سیاسی حربے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس کا مقصد عالمی توجہ حاصل کرنا اور اپنے سیاسی حامیوں کی حمایت حاصل کرنا ہے۔

ٹرمپ کے توسیع پسندانہ عزائم اور اس کے نتائج

گرین لینڈ پر قبضہ، پاناما نہر کو دوبارہ حصول اور کینیڈا اور میکسیکو کو امریکہ کا حصہ بنانے کے دعوے علامتی ہیں۔ ان خیالات کو عملی شکل دینا قانونی، سیاسی اور اقتصادی رکاوٹوں کے سبب انتہائی مشکل ہے اور اس سے امریکہ کو بھاری اخراجات اٹھانا پڑسکتا ہے۔

گرین لینڈ جو کہ ڈنمارک کا حصہ ہے، بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ڈنمارک اور مقامی لوگوں کی رضامندی کے بغیر بیچا یا قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تجویز نہ صرف ڈنمارک کی حکومت کے سخت مخالفت کا سامنا کرے گی، بلکہ امریکہ کے اتحادیوں کی منفی ردعمل کا سبب بھی بنے گی۔

پاناما کینال 1999 سے بین الاقوامی معاہدوں کے تحت پاناما کے تحت ہے۔ اس نہر کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش سے پاناما کی خودمختاری پامال ہوگی اور اس کے باعث امریکہ کو سفارتی تنہائی کا شکار ہوسکتا ہے۔ اسی طرح، کینیڈا یا میکسیکو کا الحاق امریکہ کے لیے سیاسی اور عسکری لحاظ سے بھاری اخراجات کا باعث بنے گا۔

مجموعی طور پر یہ اقدامات نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ عالمی رائے عامہ کو مشتعل کرنے، امریکہ کی سفارتی تنہائی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو نقصان پہنچانے کا سبب بنیں گے۔ اس کے علاوہ ٹرمپ کے غیرذمہ دارانہ بیانات سے امریکہ کی عالمی سطح پر حیثیت مزید کمزور ہوگی۔ علاوہ ازیں ٹرمپ کے ان بیانات کی وجہ سے امریکہ کے اندر قانونی اداروں اور عوامی رائے کی طرف سے شدید ردعمل ہوگا۔
 

News ID 1929457

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha