21 جون، 2024، 8:33 PM

ایرانی صدارتی امیدواروں کے درمیان انتخابی مباحثے کا تیسرا راؤنڈ؛

مغربی تہذیب عورتوں کے معاملے میں بند گلی میں پہنچ چکی ہے/ ایران ثقافتی لحاظ سے مقتدر ملک ہے

مغربی تہذیب عورتوں کے معاملے میں بند گلی میں پہنچ چکی ہے/ ایران ثقافتی لحاظ سے مقتدر ملک ہے

صدارتی امیدوار ٹیلی ویژن مباحثے کے دوران اپنے انتخابی پروگراموں اور ملک میں موجود مسائل کے حل بارے میں گفتگو کی۔

مہر نیوز کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے 14ویں صدارتی انتخابات کے امیدواروں کے درمیان کچھ دیر پہلے قومی ٹی وی پر مباحثے کے تیسرے مرحلے کا آغاز ہوگیا۔

مباحثے میں صدارتی انتخاب کے تمام چھے امیدوار مصطفی پور محمدی، مسعود پیزشکیان، امیرحسین قاضی زادہ ہاشمی، علی رضا زکانی، سعید جلیلی اور محمد باقر قالیباف شریک ہوں گے۔

صدارتی امیدوار اس دوران اپنے انتخابی ایجنڈے اور ملک میں موجود مسائل کے حل کی وضاحت کریں گے۔

یاد رہے کہ صدارتی امیدواروں کا دوسرا مباحثہ جمعرات کو ہوا، جس میں معیشت اور صحت کے مسائل پر توجہ دی گئی۔

تیسرا انتخابی مباحثہ "ثقافتی حکمرانی کے ذریعے سماجی ہم آہنگی" کے عنوان سے تھا۔

معروف نیوز اینکر مہدی خسروی آج کے مباحثے کے میزبان تھے۔

صدارتی امیدواروں کی باجماعت نماز

ایرانی صدارتی امیدواروں کے درمیان انتخابی مباحثے کا تیسرا راؤنڈ شروع

14 ویں صدارتی انتخابات کے امیدواروں نے مباحثے سے پہلے باجماعت نماز ادا کی۔

محمد باقر قالیباف- صدارتی امیدوار 

صدارتی امیدوار محمد باقر قالیباف نے کہا کہ خاندان سب سے اہم ادارہ ہے جس پر حکومتوں کو غور کرنا چاہیے۔ ہم صنفی مساوات کو یقینی طور پر قبول نہیں کرتے، لیکن ہم صنفی انصاف کو قبول کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صنفی انصاف کا نفاذ ہماری اہم ترجیح ہے۔ آج خاندان میں عورت کو ماں بیوی اور ساس کی حیثیت سے اہم مقام حاصل ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا کے حوالے سے گفتگو میں کہا کہ سوشل میڈیا کی حکمرانی ایک ضرورت بن چکی ہے۔ اب معیشت کا بڑا حصہ ورچوئل اسپیس میں ہے جسے ہمیں استعمال کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگ اپنی ثقافت خود تیار کرتے اور استعمال کرتے ہیں۔ حکومتوں کو ان کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ ثقافت کے تین حصے آلات، تولیدات اور ثقافتی مصنوعات ہیں؛ آج ہمارے پاس ورچوئل اسپیس میں ماہر اور پیشہ ورانہ افرادی قوت کا سنہری مجموعہ موجود ہے۔ اب دنیا میں ہمارے بچے کھیل کے میدان میں دنیا کی سطح پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اب، انٹرنیٹ کی اس رفتار اور فلٹرنگ رویے کے ساتھ. البتہ فلٹر کرنے کے بعد، تحفظ کے بجائے، خطرہ بڑھ گیا اور ہم نے مالی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے نقصان اٹھایا ہے۔

قالیباف نے کہا کہ رہبر معظم کی ثقافتی فکر اور نصیحتیں بے مثال ہیں۔ وہ ہمارے لئے ایک رہبر اور ولی ہونے کے علاوہ ثقافتی اور دیگر شعبوں میں بے نظیر شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے دس آٹھ سال پہلے نصیحت کی تھی کہ ہزاروں رضاکاروں کا گروہ تیار کرنا چاھئے تو ثقافتی کام کریں۔ ثقافتی اداروں کو ان کی مدد کرنا چاہیے۔ ہم نے اس نصیحت پر کس حد تک عمل کیا؟ کیا ہمارے پاس وسائل اور پیسوں کی کمی تھی؟ ان ثقافتی مراکز اور اداروں کے پاس موجود پیسے جوان اور نئے ٹیلنٹ کو کیوں نہیں دیا جاتا ہے؟

سعید جلیلی- صدارتی امیدوار 

اس موقع پر صدارتی امیدوار سعید جلیلی نے کہا کہ طول تاریخ میں اور انقلاب کے بعد ہماری بہت سی کامیابیاں خواتین اور مسلم خواتین کے کردار کی وجہ سے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مغربی تہذیب عورتوں کے معاملے میں بند گلی میں پہنچ چکی ہے اور اسے سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ مغرب عورتوں کے معاملے میں بند گلی میں پہنچ چکا ہے۔ اس کے پاس آگے جانے کا راستہ نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہماری بہت سی خواتین کا شکوہ ہے کہ ملک میں خواتین کے موجودہ کردار اور مقام کو کیوں سنسر کیا جا رہا ہے؟ دنیا کو دکھایا کیوں نہیں جارہا؟ کچھ مہینے پہلے، میں نے میپنا ایئر لائن کمپنی کو دیکھا، جس میں 250 سینئر ماہرین اور 80 پی ایچ ڈیز جو بہت اچھا کام کر رہے تھے، ان میں سے آدھی خواتین تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران میں تعلیم حاصل کرنے والی ناروے کی ایک سفارت کار خاتون نے مجھ سے کہا کہ آپ اپنے اختیارات (خواتین کے ملک کی ترقی میں کردار) کا دفاع کیوں نہیں کرتے اور انہیں دنیا کے سامنے کیوں پیش نہیں کرتے؟

ورچوئل اسپیس کے فعال صارفین کی تعریف کرتا ہوں

سعید جلیلی نے مزید کہا کہ میں ان صارفین کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے سوشل میڈیا میں فعال کردار ادا کیا اور دشمن پر سوار ہو کر حکومت کرنے کی کوشش کی۔ ایرانی میسنجرز جیسے بلہ، سروش، ایتا، روبیکا، نشان، بلد، اسنیپ، تاپسی، کیفے بازار، بادصبا، وغیرہ نے بہت اچھا کام کیا، یعنی ان کے پاس ایکٹو اپروچ تھا نہ کہ غیر فعال۔آج، ورچوئل پلیٹ فارم دنیا کی گورننس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بہت سی طاقتیں اور حکومتیں اپنے پلیٹ فارمز کو بین الاقوامی بنانے یا دوسرے پلیٹ فارمز کے لیے سخت قوانین نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، امریکہ نے ٹک ٹاک کے ساتھ کیا کیا۔ یورپ نے بھی دوہرا قانون پاس کیا اور امریکہ اور دیگر ممالک پر بھی پابندیاں لگا دیں۔

علی رضا زاکانی- صدارتی امیدوار

علی رضا زاکانی نے کہا کہ اسلام نے عورت کو ایک موقع اور جائے پناہ ہونے کے حوالے سے بہت بڑا مقام بخشا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ دیگر مکاتب فکر میں خواتین کے بارے میں کہی جانے والی بہت سی باتیں صرف نعرے ہیں، لیکن اسلام نے خواتین اور بچیوں کا مقام اس طرح رکھا ہے کہ وہ موقع اور فرصت ہیں نہ کہ کوئی مسئلہ یا مشکل! انہیں دوسروں کی دستگیری کرنا ہے، کسی کو ان کا دستگیر اور مددگار بننے کی ضرورت نہیں۔ عورت کو بیوی اور ماں ہونے کے ساتھ سماجی میدان میں بھی آگے بڑھنا چاہیے۔ رہبر معظم انقلاب نے حکومت سے اس سلسلے میں کام کرنے کی سفارش کی ہے اور حکومت اس بات کی پابند ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حجاب شرعی اور قانونی ہے، اور بد حجابی کا علاج  قانونی اور احترام کے ساتھ ہونا چاہیے۔ دو خصوصی مسئلے، ایک طرز زندگی کے حوالے اور دوسرا ملکی پیش رفت کے حوالے سے ہمارے ایجنڈے میں شامل ہیں

انہوں نے کہا کہ خاندان اسلامی نظام میں ایک فعال اور بنیادی عنصر ہے۔ میری حکومت کے فلاحی راہ حل میں لوگوں کی زندگی کی گرہیں کھل جائیں گی۔

قاضی زادہ ہاشمی- صدارتی امیدوار 

قاضی زادہ ہاشمی نے کہا کہ بعض امیدواران انتخابات میں خواتین سے سوئے استفادہ کرتے ہیں۔ ہماری خواتین کا مسئلہ حجاب نہیں ہے، یہ ایک مغالطہ اور فریب ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کے موضوع سے متعلق بیان بازی اور کھوکھلے نعرے درست نہیں ہیں۔ خواتین کے مسئلے کو انتخابی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ ایران خاندان کا گہوارہ ہے اور خواتین ہمارا سب سے بڑا سماجی سرمایہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مغرب میں خواتین کے جنسی نقطہ نظر کا خاتمہ آج واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ انہیں بہر حال خاندانی اقدار کی طرف بھی لوٹنا ہوگا۔ آج ہمیں دنیا بھر میں خاندانی نظام کی حمایت کرنی چاہیے۔ جس کا آغاز شہد رئیسی نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں کیا۔

قاضی زادہ نے مزید کہا کہ دنیا میں خاندان کے معاملے پر ہمیں یکساں قدر اور اہداف کی حامل تمام تحریکوں کے ساتھ اتحاد کرنا چاہیے۔ البتہ ان کی تمام اقدار کو قبول کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، لیکن کچھ معاملات پر اتحاد بننا ممکن ہے۔ عورت کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک موقع اور محرک ہے ترقی کا۔ ہماری خواتین کا مسئلہ حجاب نہیں ہے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے۔ خواتین پر تاریخی ظلم ہوا؛ بعض تحجر پسندوں اور جنسیت پرستوں نے آزادی کے نعروں کے ساتھ۔ ہماری خواتین کا اصل مسئلہ صنفی امتیازی سلوک ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم فلسطینی خواتین اور بچوں کے قتل عام میں خواتین کے بارے میں مغرب کے نظرئے کی وحشت ناک حقیقت کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

 انٹرنیٹ خاندان میں ایک  بنیادی چیز ہے

قاضی زادہ ہاشمی کہ خواتین کے لیے بہترین ملازمتوں میں سے ایک انٹرنیٹ ہے۔ اسمارٹ حکومت اور ڈیجیٹل اکانومی انٹرنیٹ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ عہدیداروں پر تنقید اور عہدیداروں کی نگرانی بھی انٹرنیٹ کے بغیر ممکن نہیں۔ شفافیت در اصل سمارٹ حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ایک دہائی سے مواصلات کے شعبے میں ملک کا بنیادی ڈھانچہ ترقی نہیں کر سکا۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے کچھ حدود پر سنجیدہ غور و فکر نہیں کیا گیا ہے۔

قاضی زادہ ہاشمی نے کہا کہ کیا ہم جو کچھ اپنے بچوں کے لئے کرتے ہیں وہ دوسروں کے بچوں کے لیے نہیں کرنا چاہیے؟ غیر اخلاقی سائٹس انسان کو ذہن خراب کر دیتی ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہماری بعض باتیں غیر ذمہ دارانہ ہیں۔ دوست و احباب توہین کرنا چاہیں تو بے شک کریں لیکن ناانصافی نہ کریں۔ اعداد و شمار دیکھ کر معلوم کریں کہ شہید رئیسی کی دو سال دس مہینے کی حکومت میں کون سے بڑے واقعات رونما ہوئے۔ 

ہم جو کچھ اپنے بچوں کے لئے کرتے ہیں وہ معاشرے کے لیے بھی کریں۔ ہمیں عوام کا خادم بننا چاہئے تاکہ لوگ سکون سے زندگی گزار سکیں۔ ہمیں انٹرنیٹ کی دنیا پر حکمرانی کے لئے قدم بڑھانا چاھئے۔ بیرونی دنیا نے ہمارے قومی ہیرو شہید قاسم سلیمانی کو فیلٹر کردیا ہے۔

مصطفی پور محمدی- صدارتی امیدوار 

صدارتی امیدوار مصطفی پور محمدی نے کہا کہ ہمیں شروع سے ہی ایک بہت مضبوط میسنجر بنانے پر توجہ دینی چاہیے تھی۔ میں نے 11ویں حکومت میں اس بات کو سنجیدگی سے اٹھایا تھا۔ کیونکہ میں ہمیشہ سے سوشل میڈیا  اور انٹرنیٹ کے استعمال میں سرگرم رہا ہوں اور میں نے اس شعبے میں  بڑے اقدامات کئے ہیں۔ میں نے پھر اس بات پر زور دیا کہ ہمیں ایک ایسا طاقتور مسینجر بنانا چاہیے جو خطے اور عالمی میدان میں برتر طاقت کا حامل ہو یا کم از کم اسلامی دنیا میں ایک طاقتور میسینجر ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک مشرقی میسنجر کمپنی سے بات کی، وہ شراکت داری کے لئے تیار تھی، لیکن بدقسمتی سے اس پر اتفاق نہیں ہوسکا۔

مصطفی پور محمدی نے کہا کہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ ایران ثقافتی لحاظ سے مقتدر ملک ہے۔ ہم نے ثقافتی انقلاب برپا کیا۔ معدود ممالک میں سیاست کو ثقافت کی حیثیت حاصل ہے۔ ہمیں کئی چوٹیاں سر کی ہیں لیکن مجموعی طور پر ہمیں قبول کرنا پڑے گا کہ ہماری کامیابیاں قابل توجہ نہیں۔

شہید رئیسی کی ثقافتی پالیسی پر عمل کیا جائے

پورمحمدی نے مزید کہا کہ شہید رئیسی نے ایک بڑا پروجیکٹ شروع کیا جس کا عنوان تھا "ہنر سب کے لیے"۔ یہ ایک بہت ہی دلچسپ سوچ تھی جو اس نے شروع کی تھی، یقیناً یہ کسی ناخوشگوار حادثے کی وجہ سے یایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکی، لیکن اس سوچ پر عمل ضرور کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ثقافت اور ہنر کے مخصوص ارتکاز سے نجات ضروری ہے۔

مسعود پزشکیان- صدارتی امیدوار

صدارتی امیدوار مسعود پزشکیان نے کہا کہ اگر ہم انٹرنیٹ کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بناتے ہیں تو ہمیں لوگوں کی رسائی میں رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہیے۔  اگر ہم مستقبل کو دیکھنا چاہتے ہیں، مثال کے طور پر مصنوعی ذہانت وغیرہ، تو دنیا کے ساتھ انٹرنیٹ کا رابطہ ہونا ضروری ہے۔ حفاظتی پابندیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جن پر ہمیں توجہ دینی چاہیے۔ ہمارے ذہین افراد کو ہمارا ملک نہیں چھوڑنا چاہیے۔ جس کے لئے ہمیں ماحول تیار کرنا چاہیے تاکہ وہ ملک نہ چھوڑیں۔

پزشکیان نے کہا کہ بچوں کو چاہئے کہ سکول سے ہی کتاب خوانی سیکھیں۔ کتاب خوانی کے لئے درپیش مشکلات میں سے ایک مہنگی قیمت ہے۔ کتاب خریدنے کی قیمت نہ ہونے سے کتاب خوانی کی شرح بھی کم ہو جائے گی۔ ان مسائل کو سکول کے دور سے ہی حل کرنا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ فلم اور فلم سازوں کی حمایت کرے اور ہدایت کاروں کو درپیش مشکلات برطرفی کرے۔ ان کو ملک سے باہر جانے سے روکنا ہوگا۔

News ID 1924872

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha