28 اپریل، 2024، 3:06 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

امریکہ کی ایران گیس پائپ لائن معاہدے کی مخالفت؛ کیا پاکستان اپنے فیصلے پر قائم رہ پائے گا؟

امریکہ کی ایران گیس پائپ لائن معاہدے کی مخالفت؛ کیا پاکستان اپنے فیصلے پر قائم رہ پائے گا؟

ایران کے صدر کے حالیہ دورہ پاکستان میں دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان گیس پائپ لائن کے بڑے معاہدے پر توجہ مرکوز کی گئی تھی جو مختلف وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہے۔

مہر خبر رساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی ایران کے پہلے صدر ہیں جنہوں نے 2017 کے بعد پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ان کے دورہ پاکستان کے دوران شائع ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں، دونوں ممالک نے توانائی، بجلی کی تجارت اور آئی پی گیس پائپ لائن منصوبے، جسے پیس پائپ لائن بھی کہا جاتا ہے، میں تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔

 حالیہ مہینوں میں ایران کے ساتھ پاکستان کا گیس پائپ لائن منصوبہ توجہ کا مرکز رہا ہے، اس سلسلے میں میڈیا پر پاکستان اور ایران کے ساتھ ساتھ امریکہ کے سیاسی عہدیداروں کے تبصرے بھی سامنے آئے ہیں۔

پاکستان اور توانائی کا بحران

پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو کووڈ وبائی بیماری کے آغاز کے بعد سے متعدد بحرانوں کا سامنا ہے۔ مالی اور توانائی کے مسائل نے اس ملک کو ایک خطرناک صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ 

مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی عالمی مانگ اور قیمتوں میں تیزی سے اضافے نے خاص طور پر 2022 میں یورپی توانائی کے بحران کے بعد، پاکستان کے لیے صورتحال کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔

پاکستان جیسے ملک کے لیے عالمی معاشی حالات سازگار نہیں ہیں، جو پہلے ہی زوال پذیر معیشت اور بجلی کے بنیادی ڈھانچے کی کمی کا شکار ہے۔ ملک کے صارفین اور صنعتیں حرارتی اور توانائی کے لیے قدرتی گیس پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں جس کے لئے سستی گیس کی فراہمی کی ضرورت ہے۔

توانائی کی درآمدات کی لاگت کو کم کرنے کے لیے، اسلام آباد نے روس کے ساتھ بھی بات چیت کی، جو یوکرین کی جنگ کے بعد مغربی پابندیوں کی زد میں ہے اور تیل اور گیس کی رعایتی فراہمی کے لئے مشرقی صارفین کی تلاش میں ہے۔ لیکن اس طرح کے پروگرام کو نافذ کرنے کے لیے اسے بہت سے سفارتی اور تکنیکی چیلنجز کا سامنا ہے۔

قدرتی گیس ملک کی توانائی کا تقریباً 40 فیصد حصہ ہے۔ پاکستان اپنی ضروریات کا تقریباً 80 فیصد تیل بھی درآمد کرتا ہے۔ ایسے میں ایران جو کہ برٹش پیٹرولیم کمپنی کے عالمی توانائی کے شماریاتی تجزیے کے مطابق روس کے بعد دنیا میں گیس کے دوسرے بڑے ذخائر رکھتا ہے اور پاکستان کے پڑوس میں واقع ہے، اسلام آباد کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک سازگار آپشن سمجھا جاتا ہے۔ 

پاکستان کی موجودہ حکومت کے پاس طویل عرصے سے درآمدات کو پورا کرنے کے لیے زیادہ زرمبادلہ کے ذخائر نہیں ہیں، ادائیگیوں کے توازن کے بحران اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے شدت سے کوشش کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی وزارت تجارت نے گزشتہ سال اعلان کیا تھا کہ حکومت نے افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ تیل اور قدرتی گیس سمیت کچھ اشیا کی کلیئرنگ ٹریڈ کے لیے خصوصی آرڈر جاری کیا ہے۔

سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد امین نے کہا کہ پاکستان ڈالر کی طلب میں اضافہ کئے بغیر روس اور ایران سے تیل اور توانائی کی درآمد سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

امن گیس پائپ لائن کی تعمیر کے لئے 10 سالوں پر محیط طویل انتظار

پاکستان کی توانائی کی فوری ضرورت کے ساتھ ساتھ امریکہ کی جانب سے گیس پائپ لائن پر پابندیوں سے استثنیٰ کی درخواست کے درمیان، پاکستان کی عبوری حکومت نے گزشتہ سال فروری میں اس منصوبے کے 80 کلومیٹر سیکشن کی تعمیر شروع کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ 

پاکستان نے ایران کے ساتھ اپنی سرحد سے ملک کے جنوب مغرب میں بندرگاہی شہر گوادر تک 80 کلومیٹر طویل پائپ لائن کی تعمیر کی منظوری دے دی۔

 یہ فیصلہ ایران کی جانب سے 2009 کے معاہدے کے تحت پاکستان کے لیے پائپ لائن کی تعمیر شروع کرنے یا بین الاقوامی قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے مقرر کردہ ڈیڈ لائن کے بعد کیا گیا۔

پاکستان کی میڈیا رپورٹ کے مطابق منظور شدہ پائپ لائن کی تعمیر سے ملک کو گیس کی درآمد پر سالانہ پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کی بچت ہو گی۔ ایران کی سرحدی لائن سے صوبہ بلوچستان کے شہر گوادر تک پھیلی اس پائپ لائن کی تعمیراتی لاگت کا تخمینہ 45 ارب پاکستانی روپے لگایا گیا ہے۔

ابتدائی معاہدے کے تحت ایران کی گیس پاکستان کو منتقل کرنے کے لیے 1,931 کلومیٹر طویل پائپ لائن تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس میں ایران کے اندر 1,150 کلومیٹر اور پاکستان کے اندر 781 کلومیٹر پائپ لائنیں شامل ہیں۔ دونوں ممالک اس منصوبے کو اپنی سرزمین پر نافذ کرنے کے پابند تھے۔ 

معاہدے کے مطابق اس منصوبے کی سپلائی جنوری 2015 تک شروع ہو جانی تھی۔ اس وقت ایران نے اس پائپ لائن کی 900 کلومیٹر سے زیادہ کی تعمیر اپنی حدود میں مکمل کر لی ہے، جبکہ باقی 250 کلومیٹر کا حصہ ابھی تک تعمیر نہیں ہو سکا ہے۔

گیس پائپ لائن منصوبے کا آغاز  2010 میں ہوگیا تھا جس کا مقصد پاکستان کو توانائی فراہم کرنے کے لیے ایران کے جنوبی پارس فیلڈز سے گیس منتقل کرنا تھا۔ جون 2009 میں طے پانے والے گیس کی خرید و فروخت کے معاہدے کے مطابق، ایران پاکستان کو یومیہ 750 ملین سے 1 بلین کیوبک فٹ (زیادہ سے زیادہ 28.3 ملین مکعب میٹر) قدرتی گیس برآمد کرنے کے لیے پرعزم تھا۔ لیکن ایران کی جانب سے 2011 میں 900 کلومیٹر طویل پائپ لائن کی تعمیر مکمل ہونے کے باوجود یہ منصوبہ روک دیا گیا ہے۔

ایک باخبر ذرائع نے پاکستانی نیشن نیوز ویب سائٹ کو بتایا کہ اگر پاکستان اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں کرتا ہے تو تہران اس معاملے کو پیرس میں قائم بین الاقوامی ثالثی عدالت میں بھیجے گا، اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو تقریباً 18 بلین ڈالر معاہدوں کی واجبات ادا کرنا ہوں گی۔

کراچی میں ایران کے قونصل جنرل حسن نوریان نے پاکستانی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایران گیس کمپنی ایک قومی کمپنی ہے جو ایرانی عوام کی ملکیت ہے۔" برسوں پہلے، اس نے سالانہ ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ اب ایرانی پارلیمنٹ اس منصوبے کی قسمت کا فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔ ایران نے پہلے ہی جنوبی پارس گیس فیلڈز سے پاکستان کی سرحد تک 1100 کلومیٹر طویل پائپ لائن کو مکمل کرکے اپنے معاہدے کا کچھ حصہ پورا کیا تھا۔ پھر 2014 میں پاکستان کی درخواست پر اس نے اس ڈیڈ لائن کو مزید ایک دہائی تک بڑھا دیا۔

امریکی وارننگ کے باوجود ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کی تکمیل کے حوالے سے پاکستان پر امید ہے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ امریکہ نے پابندیوں کے بہانے ایران کے ساتھ کسی بھی تجارتی معاہدے کے بارے میں خبردار کیا ہے، پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس امید کا اظہار کیا کہ امریکہ کے انتباہ کے باوجود اس ملک اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کی تکمیل ہو گی۔

اس منصوبے کی تعمیر جیو اسٹریٹیجک دباؤ، ایران کے خلاف امریکی پابندیوں اور پاکستان کے مالی مسائل کے زیر اثر ایک دہائی سے زائد عرصے سے التوا کا شکار ہے۔ 

جامعہ کراچی کی پروفیسر شائستہ تبسم نے بلومبرگ نیوز کو بتایا کہ امریکہ یقیناً پاکستان اور ایران کا قریب آنا پسند نہیں کرے گا۔

گزشتہ ماہ خواجہ آصف نے امریکی معاون وزیر خارجہ ڈونالڈ لو کے بیانات پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی شدت سے مخالفت کر رہا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو تہران کے ساتھ اقتصادی معاہدے سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہے اور امریکہ کو بین الاقوامی منڈیوں سے مہنگی توانائی درآمد کرنے میں پاکستان کے چیلنجز پر غور کرنا چاہیے۔

خواجہ آصف نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ایران پاکستان کو توانائی باآسانی اور مناسب قیمت پر فراہم کر سکتا ہے۔ 

ساتھ ہی ان کا خیال ہے کہ اگر امریکہ ایران سے پاکستان کو گیس کی منتقلی کی مخالفت پر اصرار کرتا ہے تو وہ متبادل حل فراہم کرنے کا پابند ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ڈونلڈ لو کے بیان کے جواب میں کہا: پاکستان کو ایران سے قدرتی گیس کی درآمد اور پائپ لائن کی تعمیر کے لیے پابندیوں سے استثنیٰ کی ضرورت نہیں ہے۔

تاہم، پاکستان میں امریکی سفارت کار، تھامس مونٹگمری نے ایک بیان میں کہا: "ہم ایران کے ساتھ تجارتی معاہدے پر غور کرنے والے ہر فرد کو پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔" 
انہوں نے تصدیق کی کہ پاکستان نے ابھی تک امریکہ سے استثنیٰ کی باضابطہ درخواست جمع نہیں کرائی ہے۔

امریکہ نے پاکستان کو سبز متبادل کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی ہے، اور ملک کی ترقیاتی ایجنسی نے 2010 سے پاکستان کے پاور گرڈ میں تقریباً 4,000 میگاواٹ صاف توانائی شامل کرنے میں مدد کی ہے۔

گیس پائپ لائن معاہدے کی امریکی مخالفت کے معاشی محرکات

امریکی اخبار "ہیل" کے تجزیے کے مطابق ایران کی گیس کا پاکستان کو پہنچنے والا نقصان تجارتی نقطہ نظر سے امریکہ کے مفاد میں ہو سکتا ہے، کیونکہ روس میں نارڈ سٹریم گیس پائپ لائن کو سبوتاژ کرنے کے بعد بالکل یورپ کی طرح اور ایسٹ میڈ گیس پائپ لائن کی منسوخی سے "امریکی گیس پر انحصار بڑھ گیا ہے اور پاکستان بھی امریکی مائع قدرتی گیس پر انحصار کے گا۔

ایک اور امریکی ہدف 62 بلین ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر دباؤ ڈالنا ہو سکتا ہے جو چین کے کاشغر کو پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے ملاتا ہے۔ جس میں ہائی ویز، ریلوے اور پائپ لائنیں شامل ہیں۔ پاکستان کے سب سے محروم خطہ کو پانی اور بجلی فراہم کرنے کے لیے اس راہداری کی اہمیت کے پیش نظر چینی کمپنیوں کے خلاف بلوچ تشدد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم امریکی اخبار "ہیل" کا کہنا ہے کہ بالآخر فاتح چین ہی ہوگا، جو "ہمیشہ سے پاکستان کا دوست رہا ہے۔

شہباز شریف کہپاکستان توانائی کے شعبے میں ایران کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔

گزشتہ ہفتے پاکستان کے وزیراعظم نے ایرانی صدر کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ایران کے ساتھ توانائی سے متعلقہ شعبوں میں مشترکہ تعاون کا اعلان کیا تھا۔

شہباز شریف نے ایران اور پاکستان کے درمیان تعاون کے معاہدوں پر دستخط کی تقریب میں کہا کہ آج ہمارا ایران کے ساتھ مختلف دوطرفہ امور پر تبادلہ خیال ہوا اور ہم نے علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر بھی بات کی۔" ہم ایران کے ساتھ توانائی اور مشترکہ سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کریں گے۔ 

انہوں نے اس بات کو یاد کرتے ہوئے کہ ایران پاکستان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ہے کہا کہ ہم نے دوطرفہ تجارت، مشترکہ سرمایہ کاری اور توانائی کے شعبے میں تعاون پر اتفاق کیا۔

اس دورے کے دوران شہباز شریف اور صدر رئیسی نے اسلام آباد میں آٹھ معاہدوں پر دستخط کئے جن میں خصوصی اقتصادی زون کا قیام بھی شامل تھا۔

ایرانی صدر رئیسی نے پریس کانفرنس میں کہا: پاکستان اور ایران کو آئندہ تین سے چار سالوں میں دو طرفہ تجارت کو تقریباً 10 بلین ڈالر تک بڑھانا چاہیے۔

ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کے لیے پاکستانی صنعتکاروں کی حمایت

پاکستانی صنعت کاروں، برآمد کنندگان اور درآمد کنندگان نے پاکستان اور ایران کے درمیان 10 ارب ڈالر تک کے باہمی تجارتی ہدف کا خیرمقدم کرتے ہوئے قومی کرنسی یا زر مبادلہ میں تجارت کے نئے طریقے تلاش کرنے، توانائی کے شعبے میں ایران کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے اور پاکستان گیس پائپ لائن سے متعلق مسائل کو حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ 

ٹریبیون نیوز کے مطابق پاکستانی صنعتکاروں نے باضابطہ دوطرفہ تجارت میں اضافے کی حمایت کرتے ہوئے طویل عرصے سے تاخیر کا شکار ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے، کیونکہ مقامی صنعتوں کو تجارت کی لاگت کو کم کرنے کے لیے سستی گیس کی ضرورت ہے۔

ایک ممتاز صنعت کار اور معاشی تجزیہ کار ریاض الدین نے ٹریبیون کو بتایا کہ تجارت کا حجم بہت کم ہے کیونکہ ہم ایران میں موجود مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔" پاکستانی صنعتوں کو تیل، گیس اور پیٹرو کیمیکل مصنوعات خصوصاً ایرانی گیس جیسی بنیادی اشیاء کی ضرورت ہے۔ 

انہوں نے ایران-پاکستان-انڈیا (آئی پی آئی) اور ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-انڈیا (TAPI) گیس پائپ لائنوں کے بارے میں بھارت کی دستبرداری کا ذکر کیا اور ایران اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس پائپ لائن کی تکمیل جاری رکھیں۔

News ID 1923626

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha