1 اپریل، 2024، 5:16 PM

امام علی ع انصاف، ہجرت اور اعمال صالحہ سے متعلق قرآنی آیات کے حقیقی مصداق ہیں، حجۃ الاسلام انصاریان

امام علی ع انصاف، ہجرت اور اعمال صالحہ سے متعلق قرآنی آیات کے حقیقی مصداق ہیں، حجۃ الاسلام انصاریان

ایرانی معروف خطیب حجۃ الاسلام حسین انصاریان نے کہا کہ قرآن کریم کی اخلاص عمل سے متعلق آیات کا کامل نمونہ اور مصداق اتم امام علی علیہ السلام کی ذات گرامی ہے۔

مہر نیوز رپورٹر کے مطابق، معروف عالم دین حجت الاسلام والمسلمین حسین انصاریان نے مسجد امیر میں ماہ رمضان المبارک کی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم کی آیات خارجی مصداق رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آیات میں بہشت کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کا ایک خارجی وجود ہے، یعنی وہ موجود ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر قرآن کریم کی دو ہزار آیات رب کائنات کے بارے میں بتاتی ہیں تو اس کا مطلب خدا صرف قرآن کی تحریروں میں ہی نہیں ہے بلکہ اس کا مقدس وجود معروضی ہے اور کائنات میں موجود ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہمیں قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں مل سکتی جس کا کوئی معروضی اور خارجی مصداق نہ ہو، کہا کہ قرآنی آیات کا ایک سلسلہ صرف «ایها الذین آمنوا» سے شروع ہوتا ہے۔ بزرگانِ اہل سنّت کے مطابق وہ تمام آیات جن کا آغاز "یا ایھا الذین آمنوا" سے ہوا ہے، ان کا خارجی مصداق امام علی علیہ السلام ہیں، اور وہ مومنین کے سردار ہیں۔

حجۃ الاسلام انصاریان نے مزید کہا کہ وہ آیات جو ہجرت، جہاد، عمل صالح، خفیہ اور علانیہ انفاق، گیارہ رکعات نماز شب، عدل، ظالموں کے خلاف سخت جدوجہد کے بارے میں ہیں ان کا خارجی مصداق امام علی ع ہیں۔ اس سے بھی اہم یہ ہے کہ جو آیات اخلاص عمل کے بارے میں ہیں ام کے کام اور اتم مصداق بھی امام علی علیہ السلام ہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی کہ ایک 20 سے 23 سال کی عمر کا ایک نوجوان عرب کے مشہور پہلوانوں کے مقابل آ کھڑا ہوجائے اور انہیں شکست دے۔ جنگ خندق میں جب عمرو بن عبدود نے میدان کے وسط میں جا کر مبارزہ طلب کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا کہ کون اللہ کے دین کے دفاع کے لیے اس کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہے۔ تینوں مرتبہ، امام علی (ع) کے علاوہ کسی نے پیغمبر (ص) کو جواب نہیں دیا۔ کسی نے جواب دینے کی ہمت نہیں کی۔

امام علی (ع) نے تین بار کھڑے ہو کر اپنی آمادگی کا اعلان کیا تو پیغمبر نے قبول نہیں کیا اور چوتھی بار جن کوئی نہیں اٹھا تو پیغمبر ص نے قبول کیا۔

اس دوران بہت سے لوگ اس خیال سے خوش تھے کہ اگر امیر المومنین عمرو بن عبدود کے ساتھ جنگ کریں گے۔ وہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور یوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی جانشین نہیں ہوگا اور وہ آسانی سے خلافت سنبھالیں گے۔ 

جب امام علی (ع) میدان کی طرف چل پڑے میں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ آج سراپا ایمان سراپا کفر کے مقابل جا رہا ہے۔ امام علی ع  عمرو بن عبدود کو جہنم واصل کرنے کے بعد کسی عجب اور خودپسندی کا اظہار کئے بغیر لوٹے جس پر پیغمبر اکرم ص نے فرمایا کہ علی کی یوم خندق کی ایک ضربت ثقلین کی عبادت سے افضل ہے۔

ایرانی معروف عالم دین نے کہا کہ جنگ خندق میں جو لوگ پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ تھے ان میں سے بہت سے لوگوں نے پیغمبر کی اطاعت نہیں کی جب پیغمبر زندہ تھے تو انہوں نے آپ کی خواہش کے خلاف بہت سی باتیں کہیں۔ مکہ میں 13 سال تک انہوں نے اپنے کانوں سے سنا کہ امام علی علیہ السلام پیغمبر اکرم (ص) کے جانشین ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ سنا تھا کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: میرے اور علی (ع) کی خلافت کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ جنیوں نے فاصلہ ڈالا وہ کفر و شرک ہے۔ خلافت کی یہ روایت ہم شیعوں نے نہیں گھڑی، اہل السنت کی کتابوں میں 85 معتبر روایات نقل ہوئی ہیں کہ پیغمبر اکرم ص کا فرمان ہے کہ میرے بعد خلیفہ امام علی (علیہ السلام) ہیں۔

News ID 1922999

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha