مہر خبررساں ایجنسی_ سیاسی ڈیسک؛طوفان الاقصی آپریشن کو 15 دن گزر چکے ہیں لیکن غزہ پر اندھادھند بمباری ابھی بھی ختم نہیں ہوئی۔ غزہ پر زمینی حملے کا کاونٹ ڈاون شروع ہو چکا ہے اور غاصب صیہونی حکومت کی طرف سے ہسپتال پر بمباری بھی مغرب کو فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کے لیے چند گھنٹوں کے لیے بھی جنگ بندی کو ویٹو کرنے سے نہیں روک سکی۔ غزہ میں صہیونی جرائم عروج پر ہیں اس کے باوجود یورپی پارلیمنٹ صیہونیوں کی مکمل حمایت کے ساتھ تل ابیب کو دفاع کا حق دینے پر مصر ہے دوسری طرف انسانی حقوق کا دم بھرنے کے لئے مہسا امینی کو سخاروف فریڈم آف تھاٹ ایوارڈ سے نواز رہی ہے۔ گویا حکومتوں کے سیاسی مفادات کی وجہ سے اخلاقیات کا معیار بدل جاتا ہے۔ انسانیت، انسانی حقوق، خواتین، بچوں اور خاندان کی قدر صرف وہاں تسلیم کی جاتی ہے جب سپر پاور طاقتوں کے مفادات اور خواہشات کو یقینی بنانا منظور ہوتا ہے۔ ورنہ وہ 1000 سے زائد فلسطینی بچوں کی ہلاکت اور ہسپتال پر بمباری جیسے واضح حقائق سے بھی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
غزہ کی جنگ نے پہلے سے کہیں زیادہ ثابت کر دیا کہ آج کی دنیا قوانین، کنونشنز اور انسانی حقوق کی دنیا نہیں بلکہ تعصب اور تشدد کی دنیا ہے۔ آج، پہلے سے کہیں زیادہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مغرب اپنے دعووں پر عمل کرنے اور پابند ہونے میں نہایت کمزور ہے۔ انسانی حقوق، جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی جیسے سنہرے اصولوں کا سہارا لے کر رائے عامہ کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔ یہ ان کے لیے اپنے مقاصد کے حصول اور اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے اور شاید یہ مغرب کا دہرا معیار ہی ہے جس کی وجہ سے دنیا کے مختلف حصوں میں عالمی عدم استحکام، تصادم اور جنگ کی فضا قائم ہے۔ علاوہ ازین وہ نہ صرف اسرائیلی حکومت کو جنگ میں بین الاقوامی قوانین کے قواعد و ضوابط کی پابندی پر مجبور نہیں کرتے بلکہ وہ اس غاصب اور مجرمانہ حکومت کو سیاسی اور عسکری طور پر حمایت اور پشت پناہی دیتے ہیں۔
مغرب ہمیشہ انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کے اصولوں کو ایران جیسے ممالک کے خلاف ڈیموکلز کی تلوار کے طور پر استعمال کرتا ہے کیونکہ یہ ممالک ان کے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ آج مغربی ممالک اسرائیلی حکومت کے ظلم، جرائم اور انسانوں کے قتل عام پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔
وہ انسانی حقوق کے بہانے دوسرے ممالک کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ لیکن جب ان کے اپنے مفادات خطرے میں پڑجائیں تو وہ انسانی حقوق اور آزادی کی حدود کو طاقت کے زور سے توڑ دیتے ہیں۔
آج جرمنی کی حکومت لوگوں کو فلسطینی پرچم اٹھانے سے منع کرتی ہے لیکن اسی ملک نے گزشتہ سال ایران میں ہونے والے فسادات کے دوران اسلامی جمہوریہ کے مخالفین کو اجتماع کی اجازت دی تھی، جنہوں نے رنگ برنگے جھنڈوں کے ساتھ ان اجتماعات میں شرکت کی۔ غزہ جنگ کے معاملے میں جرمن وزیر داخلہ نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ حماس کے حامیوں کو جرمنی سے نکال دیا جانا چاہیے۔ صہیونی جرائم کے خلاف اپنا احتجاج ظاہر کرنے کے لیے جرمن عوام کو فلسطینی پرچم کے بجائے تربوز کی تصویر استعمال کرنے پر مجبور کیا گیا۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق جرمن حکومت نے اس عورت کو گرفتار کیا ہے جس نے یہودی عورت کی حیثیت سے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے پلے کارڈ اٹھارکھا تھا۔
گزشتہ سال کے فسادات کے دوران مغرب نے میڈیا کے پروپیگنڈے کے ذریعے ایران میں خواتین کی حیثیت کی غلط تصویر دکھانے کی کوشش کی اور یہاں تک کہ ان ممالک کی مشہور شخصیات نے بھی ذرائع کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر ایرانی خواتین کے ساتھ ہمدردی میں بال کٹوائے۔ آج ان کی طرف سے فلسطینی مظلوم عوام کے ساتھ ذرہ برابر بھی ہمدردی کا اظہار ہوجائے تو ان کو میدان سے باہر پھینکا جائے گا۔
چنانچہ کریم بینزیما جیسا بین الاقوامی شہرت یافتہ کھلاڑی فلسطینی عوام کی حمایت کرتا ہے اور سائبر اسپیس میں ایک پوسٹ میں اسرائیل کے جرائم کی مذمت کرتا ہے تو ان پر اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے کا الزام لگایا جاتا ہے اور فرانسیسی حکومت اس کی شہریت منسوخ کرنے اور اس سے بیلن ڈی اور واپس کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
جرمنی اور فرانس کے کئی کلب نے اپنے کھلاڑیوں کو فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار ہمدردی کے جرم میں پریکٹس میچ سےمحروم کردیا۔ حالانکہ ایران میں فسادات اور بدامنی کے جرم میں کسی کو گرفتار کرنے پر آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں اور قیدیوں کو نوبل انعام سے نوازا جاتا ہے۔ اپنے شہریوں کو مختصر سیسی سرگرمی کے جرم میں پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ فرانسیسی پارلیمانی نمائندے ڈینیل اوبونو کے خلاف صرف ایک ریڈیو انٹرویو کے دوران ان کے بیانات کی وجہ سے مقدمہ چلایا گیا ہے جس میں انہوں نے فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کی تھی۔ فرانسیسی وزیر داخلہ کی جانب سے ان پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگایا گیا تھا کیونکہ ان کا جرم فقط اتنا تھا کہ اس انٹرویو کے دوران حماس کو دہشت گرد گروپ نہیں کہا تھا۔
دوسری جانب اسرائیلی پارلیمنٹ کی اخلاقیات کمیٹی نے اپنے ایک رکن اوفر کاسیف کو معطل کردیا جنہوں نے ایک انٹرویو میں غزہ میں نیتن یاہو حکومت کے اقدامات کا موازنہ یورپ میں یہودیوں کے خلاف نازیوں کے اقدامات سے کیا تھا اور تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس حوالے سے ایک اور مثال یہ ہے کہ بی بی سی نے اپنے نامہ نگار کو فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی کے جرم میں معطل کردیا ہے۔ چینل کے سابق اہلکار مہرداد فرہمند نے انکشاف کیا ہے کہ اب تک بی بی سی نے عربی شعبے کے چھے ملازمین کو فسلطینیوں سے اظہار ہمدردی کے جرم میں معطل کردیا ہے۔
آج اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسا باوقار ادارہ مغربی طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال بن گیا ہے۔ جنگ بندی کے بارے میں پیش ہونے والی قراردادوں کو منٹوں میں ویٹو کیا جاتا ہے اور فسلطینیوں کے قتل عام کی کھلم کھلا حمایت کی جاتی ہے۔ بچوں کے قتل عام میں ملوث صہیونی حکومت کی حمایت کرنے سے شرم محسوس نہیں کی جاتی ہے۔
آپ کا تبصرہ