9 اگست، 2023، 1:36 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

قرآن کریم کی مسلسل توہین کے پس پردہ محرکات، مسلمان ممالک کو ہوشیاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا

قرآن کریم کی مسلسل توہین کے پس پردہ محرکات، مسلمان ممالک کو ہوشیاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا

عراقی نژاد ملعون مومیکا نے سویڈش پولیس کی سیکورٹی میں تیسری مرتبہ قرآن کریم کی شان میں گستاخی اس توہین آمیز اقدام کے بارے میں کئی سوالات کھڑے کئے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ یورپی ممالک مخصوصا سویڈن اور ڈنمارک میں قرآن کریم  کی مسلسل توہین کا سلسلہ جاری ہے۔ عراقی نژاد سویڈش شہری سیلون مومیکا پولیس کی سیکورٹی میں اس توہین آمیز حرکت کا مسلسل ارتکاب کررہا ہے۔ اس مرتبہ ملعون مومیکا نے سویڈن کی پارلیمنٹ کے سامنے قرآن کریم کو نذر آتش کردیا۔

سیلون مومیکا کے اس توہین آمیز عمل کے بعد دوسرے عراقی نژاد شہری سیلوان نجم نے بھی اسٹاک ہوم میں توہین کی جرائت کی۔ مجرمانہ اور مشکوک ریکارڈ کے حامل مومیکا نجم کو سویڈن میں مکمل آزادی حاصل ہے۔ سیلون م ومیکا نے اس سے پہلے بھی سویڈش پولیس کو اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد اور عراقی سفارتخانے کے سامنے توہین آمیز حرکت کی اجازت دینے کی درخواست دی تھی۔

مومیکا کے اس توہین آمیز اقدام کے بعد ڈنمارک میں بھی شدت پسند تنظیم نے کوپن ہیگن میں عراقی سفارتخانے کے باہر اس توہین آمیز اقدام کو دہرایا۔ اس کے بعد ڈنمارک میں یہ واقعہ مزید دو بار تکرار ہوا۔ 

37 سالہ ملعون مومیکا عراقی صوبے نینوا میں پیدا ہوا تھا۔ شمالی عراق میں واقع اس صوبے کی اکثریت عیسائی فرقے سریان سے تعلق رکھتی ہے۔ مومیکا ایک لیبرل، سیکولر اور عراقی حکومت مخالف فرد ہے۔ بچپن میں اپنے خاندان کے ساتھ بغداد ہجرت کی اس کے بعد عراقی کردستان کے مرکز اربیل میں رہائش پذیر ہوا۔ 

2014 سے 2018 تک سریانیوں کی اتحادی جماعت کی قیادت کی۔ 2014 میں داعش کے عراق پر حملوں کے بعد عیسائیوں کی ایک تنظیم سے متحد ہوا تاکہ داعش کا مقابلہ کرسکے۔

2018 میں مومیکا سویڈن چلا گیا اور پناہ کی درخواست دی۔ سویڈن میں پناہ ملنے کے بعد مقامی پارٹی کی رکنیت لی اور دارالحکومت اسٹاک ہوم میں رہائش پذیر ہوا۔ 

ابوجرج جو کہ سریانی عیسائیوں کے مذہبی رہنما ہیں، کے مطابق مومیکا نے پورے خاندان اور فرقے والوں کے لئے مشکلات ایجاد کی ہیں۔ کردستان میں قیام کے دوران عراقی حکام کے خلاف سخت رویے اور احتجاج کی وجہ سے ہمارے لئے عرصہ حیات تنگ کردیا تھا۔

جرمنی میں رہائش پذیر مومیکا کے والد صباح متی نے قرآن کریم کی بے حرمتی کے بعد اپنے بیٹے مومیکا سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا اور تاکید کی تھی کہ ان کا مومیکا کے عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

صوبہ نینوا کے شہر الحمدانیہ کے شہریوں نے بے بھی قرآن کریم کی توہین کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مومیکا نے توہین آمیز اقدام کے ذریعے عراق میں آباد عیسائیوں کی جان خطرے میں ڈال دی ہے۔ ان کے اقدامات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ان واقعات کی وسیع پیمانے پر مذمت اور احتجاج کے باوجود مومیکا بار بار اس عمل کو تکرار کررہا ہے۔ 

مومیکا کے ان اقدامات کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ایک بحران ایجاد ہوا ہے۔ سویڈن اور اسلامی ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات ختم ہورہے ہیں۔ سعودی عرب، ایران، قطر اور عراق نے سویڈن کے سفیروں کو طلب کیا ہے۔ عراق میں سویڈش سفارتخانے کو آگ لگادی گئی جبکہ ایران نے نئے سویڈش سفیر کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔

فلسطینی ویب سائٹ قدس الاخباریہ سویڈن میں ہونے والے واقعات کے ساتھ فلسطینی شہر نابلس میں صہیونیوں کے ہاتھوں قرآن مجید کے نسخوں کی بے حرمتی اور نذر آتش کرنے کے واقعے کو ملایا ہے اور لکھا ہے کہ دونوں واقعات کا سلسلہ صہیونی انتہاپسندی اور دہشت گردی سے ملتا ہے۔ صہیونی خبیث فکر اس کا اصلی محرک ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سویڈش پولیس نے عید قربان کے دن اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے سامنے قرآن کریم کی توہین کی اجازت دی جس کے بعد ایک پناہ گزین نے اس توہین آمیز حرکت کا ارتکاب کیا۔ جس کے بعد اسلامی ممالک سمیت پوری دنیا میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی واقعے کے ساتھ فلسطینی شہر نابلس میں بعض صہیونی عناصر نے مسجد پر حملہ کیا اور کلام پاک کے چند نسخے نذر آتش کئے۔ دونوں واقعات کے ایک ہی وقت میں رونما ہونے سے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

یورپی ممالک میں قرآن کریم کی شان میں توہین کے واقعات کے تکرار سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان واقعات کے پس پردہ محرکات کیا ہیں؟

ان توہین آمیز اقدامات کے ذریعے خطے میں مذہبی فسادات پھیلانا اصل مقصد ہے اسلام مخالف قوتیں خصوصا عراق میں فرقہ وارانہ فسادات ایجاد کرنا چاہتی ہیں۔ عراقی عوام نے ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سازشوں کو ناکام بنادیا ہے۔

یورپی ممالک مخصوصا سیکنڈے نیوین ممالک کے حالات کے پیش نظر ایک مہاجر اکیلا اس عمل کا ارتکاب نہیں کرسکتا ہے۔ یہاں سے مغربی اور صہیونی ایجنسیوں کے اس عمل میں ملوث ہونے کا احتمال مزید بڑھ جاتا ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ نے بھی اپنے خطاب میں اسرائیلی بدنام زمانہ ایجنسی موساد پر اس فتنے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔

ماضی کا ریکارڈ ملاحظہ کرنے سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ جب بھی خطے میں امریکہ اور اسرائیل کی منشا کے خلاف حالات پیدا ہوجائیں تو مغربی ممالک اس طرح کے فتنے اور فسادات ایجاد کرتے ہیں۔ چند سال قبل شام کے چھوٹے سرحدی شہر سے شروع ہونے والا داعشی فتنہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اگر شہید قاسم سلیمانی اور ان کے باوفا ساتھیوں کی قربانی نہ ہوتی تو آج مشرق وسطی کی صورتحال مختلف ہوتی۔

اس مرتبہ فتنے کے لئے کسی پرامن ملک کو تلاش کرلیا ہے تاکہ وہاں فتنہ کھڑا کرکے اس کے اثرات عراق اور لبنان جیسے ممالک میں پیدا کریں۔ خطے کے ممالک اور شہریوں کو اس حوالے سے پہلے سے زیادہ ہوشیاری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔

News ID 1918311

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha