1 مارچ، 2023، 6:38 AM

پاکستان کو آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا سامنا

پاکستان کو آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا سامنا

پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے غیر معمولی صورتحال اور عالمی مالیاتی ادارے کی 98ء جیسی سخت شرائط کا سامنا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے غیر معمولی صورتحال اور عالمی مالیاتی ادارے کی 98ء جیسی سخت شرائط کا سامنا ہے، پاکستان کی بگڑتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کیلئے آئی ایم ایف نے چار پیشگی سخت شرائط رکھ دی ہیں ، آئی ایم ایف نے بجلی کی قیمتوں میں مستقل 3.82 روپے فی یونٹ کے مستقل سرچارج کا مطالبہ کردیا ہے ، آئی ایم ایف نے اسٹاف لیول معاہدے کیلئے شرح سود مزید بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا ہے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان شرح سود کو مہنگائی کے مطابق مقرر کر نے پر تیار ہے جبکہ آئی ایم ایف ایکسچینج ریٹ کو افغان باڈر ریٹ سے منسلک کرنےکا خواہشمند ہے، اس کے علاوہ بیرونی فنانسنگ پر بھی آئی ایم ایف تحریری یقین دہانی کیلئے بضد ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کو چین کے علاوہ کسی بھی دوست ملک سے واضح یقین دہانی نہیں مل سکی، چین کی طرف سے 700 ملین ڈالرز پہلے ہی پاکستان کو مل چکے ہیں، چین سے مزید ایک ارب 30کروڑ ڈالر تین اقساط میں بھی جلد مل جائیں گے، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں وزارت خارجہ کے کردار سے بھی وزارت خزانہ ناخوش ہے۔

ذرائع کے مطابق پرائمری خسارے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے اعداد و شمار پر بھی اختلاف ہیں، پاکستان 7 ماہ کے اعداد و شمار کے مطابق خسارے کا ہدف مقرر کرنا چاہتا ہے لیکن آئی ایم ایف اپنی طرف سے ہدف مقرر کرنے پر بضد ہے۔ چاروں پیشگی ​​اقدامات پر عمل درآمد ہی پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف کی سطح کے معاہدے اور 6.5 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت کے تحت 1 ارب ڈالر کی قسط کے اجراء کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ پاکستان کی جانب سے مذاکرات کرنے والے پالیسی سازوں کے دعوے کے مطابق ان میں سے کسی بھی پیشگی کارروائی کی توجیہ نہیں دی جاسکتی ۔ صرف 1998 کے حالات سے پہلے کے اقدامات سے موازنہ کرتے ہوئے اعلیٰ عہدیدار نے یاد دلایا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے پہلے 24 اقدامات کیے گئے تھے جب 1998 میں پاکستان کو تقریباً 400 ملین ڈالر کے مالیاتی فرق کا سامنا کرنا پڑا تھا ، اس وقت اسلام آباد نے بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے اپنے جوہری تجربات کئے تھے۔ جب پہلے کی تمام 24 کارروائیاں پوری ہو گئیں تو چھوٹے موٹے مسائل سامنے آئے لیکن پاکستانی فریق جنوری 1999 میں آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی راہ ہموار کرنے کے لیے سب کو حل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب آئی ایم ایف کی جانب سے گول پوسٹوں میں کی جانے والی متواتر تبدیلیوں نے پاکستانی ٹیم کے لیے 1998 میں اختیار کیے گئے اسی طرز پر عملے کی سطح کے معاہدے پر عمل کرنا واقعی مشکل بنا دیا ہے اور اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے مختلف مثالیں پیش کیں۔

عہدیدار نے بتایا کہ آئی ایم ایف مشن جس نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا تھا نے 9 فروری 2023 کی شب جائزہ مذاکرات کے اختتام پر ایک مثبت پریس ریلیز جاری کرنے کا عہد کیا لیکن کلیئرنس کے لیے واشنگٹن ڈی سی کو بھیجے گئے مسودے میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی گئی اس لیے فنڈ کے ہیڈ کوارٹر کی جانب سے پریس ریلیز کے متن سے ’’جامع مذاکرات‘‘ اور ’’مثبت نتائج‘‘ جیسے الفاظ کو حذف کر دیا گیا۔ فنانس ڈویژن کے ایک اعلیٰ عہدیدار کو اب بھی امید ہے کہ عملے کی سطح کا معاہدہ اگلے ہفتے ہو سکتا ہے بشرطیکہ آئی ایم ایف کسی بھی مطالبے کے ساتھ آنے سے گریز کرے۔ آئی ایم ایف نے چار پیشگی اقدامات کیے ہیں جن میں 3.39 روپے فی یونٹ کے علاوہ 0.43 پیسے (کل 3.82 روپے فی یونٹ) کے مستقل بجلی سرچارج کا نفاذ، مارکیٹ کی بنیاد پر زر مبادلہ کی شرح، ڈسکاؤنٹ کی شرح میں 150 سے 250 بیسز پوائنٹس اضافہ اور 7 ارب ڈالر کے بیرونی مالیاتی فرق کو پورا کرنے کے لیے دو طرفہ شراکت داروں سے تصدیق حاصل کرنا شامل ہے۔ پاور سرچارج پر پاکستانی فریق نے دلیل دی کہ آئی ایم ایف پروگرام جون 2023 میں ختم ہونے والا ہے تو آئی ایم ایف 3.82 روپے فی یونٹ کے مستقل سرچارج لگانے کا مطالبہ کیسے کرسکتا ہے۔ بیرونی فنانسنگ کی تصدیق کے معاملے پر اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ آئی ایم ایف کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو اونچی جانب کررہا ہے، اس لیے انہوں نے 7 ارب ڈالر کا فرق پیش کیا جبکہ سرکاری تخمینہ 5 ارب ڈالر کا فرق ظاہر کر رہا ہے، اس لیے اسے پورا کرنے کی ضرورت ہے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ پاکستان نے 5 ارب ڈالر کے تجارتی قرضے واپس کیے ہیں جن میں سے چین سے 700 ملین ڈالر پہلے ہی دوبارہ فنانس کیے گئے ہیں جبکہ باقی 1.3 ارب ڈالر جلد ہی دو قسطوں میں دوبارہ فنانس کیے جائیں گے۔ عہدیدار نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بالترتیب 2 ارب ڈالر اور 1 ارب ڈالر کے اضافی ڈپازٹس فراہم کریں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر جون 2023 کے آخر تک 10 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے مقررہ وقت کے اندر ڈالر کی آمد پر مطلوبہ اعداد و شمار حاصل کرنے کے انتظامات کرلئے ہیں۔

News ID 1914981

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha