مہر خبررساں ایجنسی نے آناتولی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوغان استنبول میں سعودی قونصل خانے میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے مجرمانہ قتل کی تحقیقات سے متعلق آج اہم بیان دیں گے۔ ترک میڈیا نے سعودی عرب کے قونصل خانے میں دستاویزات جلائے جانے اور ایک اہل کار کے خاشقجی کے بہروپ میں باہر آنے کی تصاویر جاری کردی ہیں، دعویٰ کیا گیا ہے کہ خاشقجی کو مارنے والے اہلکاروں نے سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان سے اسکائپ پرخاشقجی کے قتل کے احکامات لیے تھے۔ذرائع کے مطابق صحافی کی لاش قالین میں لپیٹ کر قونصل خانے سے باہر نکالی گئی تھی اور ٹھکانے لگانے کے لیے مقامی شخص کو دیدی گئی تھی۔ ترک میڈیا کے مطابق پولیس نے استنبول کے نجی پارکنگ مرکز میں کھڑی مبینہ طور پر سعودی قونصلیٹ کی گاڑی قبضے میں لے لی ہے، سعودی قونصل خانے سے بھی بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑی برآٓمدکی گئی ہے۔مدنی نامی ایک شخص کی تصویر بھی جاری کی گئی ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ قتل کے بعد اس شخص نے خاشقجی کا روپ دھارا، صحافی ہی کے کپڑے، چشمہ اور گھڑی پہنی اور پچھلے دروازے سے باہر نکلا، وہ سلطان مسجد گیا اور پبلک باتھ روم میں کپڑے بدل کر فرار ہوگیا۔ایک اہم سعودی اہلکار ماہر عبدالعزیز مطرب نے سعودی قونصلیٹ سے چار بارسعودی عرب کے شاہی دفتر فون کیا تھا، جس نے خوشقجی کو وطن واپس لانے کا حکم دیا تھا۔
رائٹرز کے مطابق خاشقجی کو قتل کرنے کا حکم سعودی عرب سے اسکائپ پر جڑے سعود القحطانی نے دیا تھا جو سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان سے انتہائی قریب ہیں ۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب کے ولیعہد صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں براہ راست ملوث ہیں۔
واقعہ کے ایک روز بعد قونصل خانے میں 3 اہلکاروں کی جانب سے بعض دستاویز نذر آتش کرنے کی ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے۔
سعودی عرب پہلے جھوٹ بول کر خاشقجی کے قتل کا انکار کرتا رہا لیکن عالمی دباؤ میں سعودی عرب کے اٹارنی جنرل نے خاشقجی کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے قتل میں ملوث سعودی عرب کے 18 اہلکاروں کو گرفتار کرنے کا بھی اعلان کیا۔ خاشقجی کے بہیمانہ قتل نے سعودی عرب کو عالمی سطح پر رسوا کرنے کے علاوہ سعودی عرب کے بھیانک چہرے کو بھی دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے۔
آپ کا تبصرہ