27 جولائی، 2016، 12:49 PM

مصر نے فتح اللہ گولن کو سیاسی پناہ دینے کا اعلان کردیا/ترکی اور مصر میں مزید ٹھن گئی

مصر نے فتح اللہ گولن کو سیاسی پناہ دینے کا اعلان کردیا/ترکی اور مصر میں مزید ٹھن گئی

مصر نے ترک حکومت کو نیچا دکھانے کے لئے ترکی میں ناکام فوجی بغاوت میں ملوث مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کو سیاسی پناہ دینے کا اعلان کریدا ہے جبکہ ترکی فتح اللہ گولن کو امریکہ سے واپس لانے کی کوشش کررہا ہے ترکی اور مصر میں کشیدگی بڑھ گئی ہے ترک صدر نے مصری صدر کو باغی بھی قراردیدیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی اردو سروس کے مطابق مصر نے ترک حکومت کو نیچا دکھانے کے لئے ترکی میں ناکام فوجی بغاوت میں ملوث مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کو سیاسی پناہ دینے کا اعلان کریدا ہے جبکہ ترکی فتح اللہ گولن کو امریکہ سے واپس لانے کی کوشش کررہا ہے ترکی اور مصر میں کشیدگی بڑھ گئی ہے ترک صدر نے مصری صدر کو باغی بھی قراردیدیا ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق مصر کے رکن پارلیمنٹ عماد مہورس نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ خودساختہ جلاوطنی پر امریکہ میں مقیم فتح اللہ گولن کو مصر میں سیاسی پناہ دی جائے۔ عماد مہورس نے اس مطالبے پر مبنی درخواست مصری پارلیمنٹ کے سپیکر علی عبدالآل، وزیراعظم شریف اسماعیل اور وزیرخارجہ سامی شکری کو ارسال کی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عماد مہورس مصر کی ڈیموکریٹک پیس پارٹی کے رکن ہیں۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عماد مہورس کا کہنا تھا کہ ”فتح اللہ گولن کو سیاسی پناہ دینے کے متعلق میری درخواست دراصل لاکھوں مصری باشندوں کی خواہش کی عکاسی کرتی ہے جو گزشتہ دنوں ترکی میں رونما ہونے والے واقعات کا بغور جائزہ لیتے رہے۔ “ انہوں مزید کہا کہ ”ترکی ایک اعتدال پسند اسلامی ملک تھالیکن رجب طیب اردغان اور اس کی پارٹی نے اسے اسلامی آمریت پسندی کا ملک بنا دیا ہے۔رجب طیب اردگان کا امریکہ سے اپنے سیاسی مخالف فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کرنا مضحکہ خیز ہے حالانکہ انہوں نے خود دیگر کئی اسلامی ممالک کے خلاف لڑنے والی دہشت گرد تنظیموں کے رہنماﺅں کو اپنے ہاں سیاسی پناہ دے رکھی ہے۔ان میں ایسے شدت پسند رہنماءبھی شامل ہیں جن کی تنظیمیں رات دن مصر میں حملے کر رہی ہیں۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عماد مہورس کا مزید کہنا تھا کہ ”میں ذاتی طور پر فتح اللہ گولن کو نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں اس وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے جب امریکہ انہیں ترکی کے حوالے کر دے۔ انہیں جلد از جلد امریکہ چھوڑ کر مصر آ جانا چاہیے۔ بالکل اسی طرح جیسے 1979ءمیں ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران کے شاہ محمد رضا پہلوی امریکہ چھوڑ کر مصر آ گئے تھے۔اس نے کہا کہ اردوغان ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کو ترکی میں انتہا پسندی  کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ مصر کے موجودہ صدر فوجی بغاوت کے ذریعہ صدارت کے عہدے تک پہنچے ہیں مصر کی فوجی بغاوت کے پیچھے امریکہ اور سعودی عرب کا ہاتھ تھا جنھوں نے مصر کے جمہوری صدر محمد مرسی کو صدارت کے عہدے سے اتار کر جیل بھیج دیا اور اس سلسلے میں سعودی عرب نے کئی ارب ڈالر مصر کی فوجی قیادت کو دیئے لیکن ترکی کے صدر اردوغان نے مصر میں فوجی بغاوت کی شدید مذمت کرتے ہوئے مصر کےجمہوری صدر  محمد مرسی کی حمایت کی تھی جس کے بعد مصر اور ترکی کے تعلقات کشیدہ چلے آرہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق ترکی میں بھی فوجی بغاوت کے پیچھے امریکہ اور سعودی عرب کا ہاتھ ہے اور امریکہ و سعودی عرب نے ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد اپنا مؤقف تبدیل کیا ۔

News ID 1865781

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha