مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس ادارے جلد ہی 28 صفحات پر مشتمل 2003 کی کانگریس کی رپورٹ منظر عام پر لانے والے ہیں۔ جس میں سعودی عرب کے بارے میں نائن الیون حملوں کی مالی معاونت فراہم کرنے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں لیکن سعودی عرب بڑے پیمانے پر رشوت دیکر اس میں رد و بدل کرنے یا اسے منظر عام پر نہ لانے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے۔ امریکہ کے ایک سابق سینیٹر کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں نائن الیون حملوں کی مالی معاونت میں سعودی عرب کو ملوث قرار دیا گیا ہے۔
یہ بات انتہائی حساس ہے، 28 صفحات پر مشتمل یہ خفیہ رپورٹ نائن الیون حملوں کی پہلی کانگریسی تحقیقات کا حصہ ہیں جس میں امریکہ میں موجود مبینہ سعودی نیٹ ورک کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے ہیں جس نے دو ہائی جیکرز کی معاونت کی۔
پریس اکائونٹس اور اس رپورٹ کے پڑھنے والوں کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں سعودی عہدے دار فہد التھمیری کے حوالے سے زیادہ سوالات اٹھائے گئے ہیں جو نائن الیون کے دو ہائی جیکر سے اس وقت رابطے میں تھا جب وہ سن 2000ء میں سان ڈیاگو آئے تھے۔
امریکی وفاقی تحقیقاتی بیورو (ایف بی آئی) کا کہنا ہے کہ جب اس کے ایجنٹس نے فہد التھمیری سے تفتیش کی تو اس نے انکار کردیا۔
نائن الیون حملوں کی تحقیقات کرنے والی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین سابق سینیٹر باب گراہم حالیہ مہینوں میں یہ کہتے رہے ہیں کہ تحقیقاتی رپورٹ کے یہ 28 صفحات دھماکہ خیز ہوں گے۔
اس رپورٹ کے بارے میں سعودی عرب کو کافی پریشانی کا سامنا ہے اور وہ اس رپورٹ کو پہلے شائع نہ کرنے کے لئے دباؤ ڈآلتا رہا ہے اور اب اس میں رد و بدو اور تبدیلی کا خواہاں ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی عالمی دہشت گردی کے پیچھے سعودی عرب کا ہاتھ اور اس کا مالی تعاون نمایاں ہے اور دنیا بھر میں سرگرم اکثر وہابی دہشت گردوں کا تعلق سعودی عرب سے ہے سعودی عرب کے مدارس میں دہشت گردی ، شدت پسندی اور نفرت پھیلانے کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے۔
آپ کا تبصرہ