مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: صہیونی حکومت کی جانب سے مشرق وسطی کے ممالک بالخصوص مقاومت کے حامیوں کے خلاف سازشوں اور ناپاک عزائم کی وجہ سے پورا خطہ کئی بار عدم استحکام اور بحران کا شکار ہوا۔ اس دوران اسرائیل نے ایران کے خلاف ایک دو دہائیوں پر محیط حملے کا منصوبہ تیار کیا جس کا مقصد ایران کی دفاعی صلاحیتوں کو کمزور کرنا اور خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنا تھا۔ جون میں ہونے والی 12 روزہ جنگ اس سلسلے کی کڑی تھی تاہم اس جنگ میں صہیونی حکومت کو شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اس جنگ نے ثابت کیا کہ ایران کی جدید میزائل اور دفاعی ٹیکنالوجی نے اسرائیل کی توقعات کے برعکس اسے شدید نقصان پہنچایا۔ بالآخر یہ صورتحال تل ابیب کو مجبور کرگئی کہ وہ صرف بارہ دن میں جنگ بندی قبول کرے اور اپنے مقاصد کو ادھورا چھوڑ دے۔
اعداد و شمار اور اسرائیلی حکام کے سرکاری اعترافات سے یہ حقیقت ابھر کر سامنے آئی ہے کہ ایران کے خلاف صیہونی حکومت کی 12 روزہ جارحیت اس جعلی حکومت کی تاریخ کے سب سے مہنگے اور سب سے زیادہ ناکام فوجی اقدامات میں شمار ہوا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس جنگ کو اسرائیل کی بیس سالہ منصوبہ بندی کا نتیجہ قرار دیا، لیکن زمینی حقائق کے مطابق اس منصوبے میں ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ اگرچہ اسرائیلی میڈیا پر شدید سنسر شپ کے باعث اصل نقصانات مکمل طور پر سامنے نہیں لائے گئے، لیکن مقامات اور میڈیا ماہرین کی اعترافات ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کو اقتصادی، عسکری اور معاشرتی سطح پر غیرمعمولی خسارہ برداشت کرنا پڑا، جس کے بعد تل ابیب کو صرف بارہ دن میں جنگ بندی قبول کرنا پڑی۔
تل ابیب کی ناکامی صہیونی رہنماؤں کی زبانی
سابق چیئرمین اسرائیلی سیکیورٹی کونسل سرلشکر گیورا آیلند نے اعتراف کیا کہ جنگ کو طول دینا اسرائیل کے مفاد میں نہیں تھا اور جنگ بندی پر راضی ہونا مجبوری بن چکا تھا۔ ان کے مطابق جنگ کے جاری رہنے کی صورت میں مالی و عسکری نقصان کہیں زیادہ ہوتا۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے بھی تسلیم کیا کہ ایرانی میزائلوں نے اسرائیلی شہروں کو شدید نقصان پہنچایا اور اسرائیل کی برسوں کی حکمتِ عملی ناکام رہی۔
اسرائیلی میڈیا نے بھی کھلے الفاظ میں اس ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔ چینل 12 کے رپورٹر نے کہا کہ اسرائیل ایران کو شکست دینے میں ناکام رہا اور اس کا بوجھ مستقبل میں برداشت کرنا پڑے گا۔ یوسی یہوشوا سمیت متعدد عسکری تجزیہ کاروں نے لکھا کہ تمام تر عسکری قوت کے باوجود اسرائیل ایران کے سامنے کمزور ثابت ہوا۔ چینل کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران نے جنگ میں اپنے طویل فاصلے تک مار کرنے والے اور بھاری میزائل ابھی تک استعمال ہی نہیں کیے، جبکہ معاریو نے کہا کہ ایران جنگ کے بعد مزید مضبوط ہوکر ابھرا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ اعترافات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ 12 روزہ جنگ اسرائیل کے لیے اسٹریٹجک، عسکری اور اقتصادی سطح پر شدید دھچکا تھی، جس نے صیہونی حکومت کو جلد پسپائی اور جنگ بندی پر مجبور کردیا۔
مالی اور اقتصادی نقصانات
اسرائیلی ٹیکس اتھارٹی کے مطابق ایران کے خلاف جنگ کے آغاز سے اب تک 41,651 خسارہ کی شکایات درج کی گئی ہیں جن میں 32,975 عمارتوں کو پہنچنے والے نقصانات، 4,119 گاڑیوں کو پہنچنے والے نقصانات اور 4,456 دیگر ساز و سامان اور املاک کے نقصانات سے متعلق ہیں۔ تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ اب بھی ہزاروں عمارتیں متاثر ہوئی ہیں لیکن ان کے مقدمات درج نہیں کیے گئے۔ روزنامہ معاریو کے اقتصادی تجزیہ کار شلومو معوز کے مطابق یہ 12 روزہ جنگ میں تقریباً 16 ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور اتنا ہی نقصان اسرائیل کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا بھی ہوا۔ روزمرہ اقتصادی سرگرمیوں میں رکاوٹ نے تقریباً 1.5 ارب ڈالر کا خسارہ کیا اور ہائی ٹیک، ٹرانسپورٹ، سیاحت، ریستوران اور صنعتوں کو مکمل طور پر معطل کردیا۔ ہوائی اڈوں کی بندش اور پروازوں کی معطلی نے بھی معیشت پر اضافی دباؤ ڈالا۔ اگر مستقبل میں نصف نقصان کی تلافی ہوگئی، تب بھی تقریبا 8 ارب ڈالر کا نقصان باقی رہے گا، جو اسرائیل کی قومی پیداوار کا تقریبا 1.3 فیصد بنتا ہے۔
فوجی اور دفاعی اخراجات
اسرائیل کے روزانہ فوجی اخراجات تقریباً 725 ملین ڈالر تھے، جو 12 دن میں مجموعی طور پر 8.7 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ اس میں فضائی حملے، ایف 35 لڑاکا طیاروں کے پروازیں اور مختلف ہتھیاروں کا استعمال شامل ہے۔ جدید دفاعی میزائل سسٹمز جیسے آئرن ڈوم، ایرو اور ڈیوڈ سلنگز کی کاروائیوں کی لاگت روزانہ 10 سے 200 ملین ڈالر تک تھی۔ لانگ رینج میزائلوں کی قیمت 7 لاکھ سے 4 ملین ڈالر کے درمیان تھی اور اس 12 روزہ دور میں کل فوجی و دفاعی اخراجات تقریبا 12.2 ارب ڈالر بنتے ہیں۔
ایران کے حملوں سے براہ راست ہونے والے نقصانات
ایران کے میزائل حملوں نے اسرائیل کی بنیادی ڈھانچوں کو تقریبا 3 ارب ڈالر کا براہ راست نقصان پہنچایا۔ اہم اہداف میں حیفا آئل ریفائنری، وائزمن انسٹی ٹیوٹ اور تل ابیب میں فوجی عمارتیں شامل تھیں۔ اسرائیلی ٹیکس اتھارٹی نے ابتدائی طور پر خسارے کا تخمینہ 1.3 ارب ڈالر لگایا تھا، جو اب توقع کی جا رہی ہے کہ 1.5 ارب ڈالر سے تجاوز کرجائے گا، جو ایران کے سابقہ حملوں کے نقصانات سے دوگنا ہے۔ اس دوران 18,000 سے زائد افراد کو اپنے مکانات خالی کرنے پر مجبور ہونا پڑا اور ان کے عارضی قیام پر خرچ تقریبا 500 ملین ڈالر رہا۔ بنیادی ڈھانچوں اور مکانات کی دوبارہ تعمیر میں کئی سال اور سیکڑوں ارب ڈالر کا وقت و سرمایہ درکار ہوگا۔
اس ناکام جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی حکومت کے بجٹ کا خسارہ قومی پیداوار کا 6 فیصد تک پہنچ گیا اور دفاعی اخراجات 20 سے 30 ارب شیکل تک بڑھ گئے۔ اسرائیل کے مرکزی بینک نے 2025 کے لیے اقتصادی نمو کو 3.5 فیصد تک کم کر دیا اور جنگ کے اخراجات کا تخمینہ تقریباً 1 فیصد قومی پیداوار (تقریباً 5.9 ارب ڈالر) لگایا۔ اسرائیل کی کریڈٹ رینکنگ پر بھی منفی اثر پڑا اور اسٹینڈرڈ اینڈ پورز اور فِچ سمیت بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ اداروں کی طرف سے وارننگ جاری کی گئی۔ امریکہ نے اسرائیل کے دفاع کے لیے تقریبا 1 سے 1.2 ارب ڈالر خرچ کیے لیکن ابتدائی اہداف میں ناکامی کے بعد مزید امداد دینے سے گریز کیا۔
نتیجہ
12 روزہ اسرائیل-ایران جنگ صیہونی حکومت کی تاریخ کے سب سے مہنگے اور ناکام ترین فوجی اقدامات میں شمار ہوتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار اور حکام کے اعترافات کے مطابق اسرائیل کے اقتصادی نقصانات 12 سے 20 ارب ڈالر کے درمیان بتائے گئے، لیکن جامع تخمینوں کے مطابق یہ رقم 40 ارب ڈالر تک پہنچتی ہے۔ اس جنگ کے دوران اسرائیل کے اہم اخراجات میں مختلف شعبوں کا تخمینہ شامل ہے۔ براہ راست فوجی اخراجات تقریباً 12.2 ارب ڈالر رہے، جبکہ روزمرہ اقتصادی سرگرمیوں اور کاروباروں کی بندش سے 21.4 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ایران کے میزائل حملوں سے 4.5 ارب ڈالر کا براہ راست نقصان ہوا اور نقل مکانی و دوبارہ تعمیر کے اخراجات تقریباً 2 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔
یہ اعداد و شمار، چاہے سرکاری ہوں یا جامع تخمینے، اسرائیل پر اقتصادی، فوجی اور سماجی دباؤ کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ طویل مدتی اثرات میں بجٹ کا خسارہ، اقتصادی نمو میں کمی، سیاحت کو نقصان، ماہرین کی ہجرت، اور سرمایہ کاروں کا اعتماد کم ہونا شامل ہیں۔ آخرکار، یہ 12 روزہ جنگ ثابت کرتی ہے کہ اسرائیل کا بیس سالہ منصوبہ ایران کے مقابلے میں ناکام رہا اور تل ابیب کو مزید نقصان اور اقتصادی تباہی سے بچنے کے لیے جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑا۔ اس منظر نامے کو اسرائیلی حکام کے اعترافات اور میڈیا ذرائع کی بنیاد پر پیش کیا گیا ہے، جو شکست اور نقصانات کے حقیقی پہلوؤں کو واضح کرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ صیہونی حکومت اپنے دعووں کے باوجود ایران کے حملوں کے نتیجے میں تقریبا مفلوج ہوگئی۔
آپ کا تبصرہ