16 اکتوبر، 2025، 5:04 PM

عبدالباری عطوان کی مہر نیوز سے گفتگو:

مشرق وسطی طویل جنگ کے دہانے پر، امریکہ و اسرائیل کا پیداکردہ بحران عشروں تک جاری رہ سکتا ہے

مشرق وسطی طویل جنگ کے دہانے پر، امریکہ و اسرائیل کا پیداکردہ بحران عشروں تک جاری رہ سکتا ہے

مشرق وسطی کے امور کے ماہر کا کہنا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ بندی انتہائی نازک ہے۔ اسرائیل کے منفی ریکارڈ کے باعث خطے میں پائیدار امن کی امید کم ہے اور خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ میں نازک جنگ بندی نے ایک بار پھر اسرائیل-فلسطین تنازع اور مشرق وسطی میں جاری طاقت کی کشمکش کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ اگرچہ یہ عارضی جنگ بندی فوری خونریزی کو روکنے میں کامیاب رہی ہے، لیکن اس کی پائیداری، تعمیر نو اور ذمہ داری جیسے اہم سوالات اب بھی خطے کے دیگر موضوعات پر غالب ہیں۔

اسی تناظر میں معروف فلسطینی-برطانوی صحافی اور روزنامہ "رأی الیوم" کے مدیر اعلیٰ عبدالباری عطوان نے اسرائیل کے عزائم، امریکہ کے کردار اور غزہ کے مستقبل پر تنقیدی نقطہ نظر پیش کیا۔ مہر نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے عطوان نے جنگ بندی کو "انتہائی نازک" قرار دیا اور خبردار کیا کہ اسرائیل کے معاہدہ شکنی کے سابقہ رویے کے باعث دیرپا امن کی امید بہت کم ہے۔

ان کی گفتگو کا متن ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:

مہر نیوز: آپ کی رائے میں، کیا یہ جنگ بندی پائیدار ہے؟ اسرائیل کی ماضی کی جنگ بندیوں کی خلاف ورزیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، کیا آپ قیدیوں کے تبادلے کے بعد دوبارہ حملوں کے امکانات ہیں؟

عبدالباری عطوان: میرے خیال میں یہ جنگ بندی انتہائی نازک ہے، کیونکہ اسرائیل کبھی قابلِ اعتماد نہیں رہا۔ ماضی میں کئی معاہدے، جنگ بندیاں اور قیدیوں کے تبادلے ہوئے، لیکن کوئی بھی دیرپا ثابت نہیں ہوا۔ لبنان میں جنگ بندی کو آٹھ ماہ سے زائد ہوچکے ہیں، لیکن اسرائیل نے اس دوران پانچ ہزار سے زیادہ بار خلاف ورزی کی ہے، اور وہ روزانہ کی بنیاد پر لبنان پر حملے کررہا ہے اور لوگوں کو قتل کررہا ہے۔ اسی لیے مجھے لگتا ہے کہ یہی تجربہ غزہ میں بھی دہرایا جا سکتا ہے۔ آج ہی اسرائیلی حملوں میں غزہ میں تقریباً نو افراد جاں بحق ہوئے، حالانکہ جنگ بندی جاری ہے۔ اسرائیلی کبھی اپنے وعدے پر قائم نہیں رہے، چاہے وہ لبنان ہو، یمن ہو، غزہ ہو یا مغربی کنارہ۔ اس لیے ذاتی طور پر میں زیادہ پرامید نہیں ہوں۔

مہر نیوز: آپ کے خیال میں غزہ کی تعمیر نو کے سب سے بڑے چیلنجز کیا ہیں، اور کن ممالک کا کردار اس عمل میں اہم ہو سکتا ہے؟

عبدالباری عطوان: میرے نزدیک غزہ کی تعمیر نو ایک نہایت پیچیدہ مرحلہ ہوگا، کیونکہ یہ صرف ایک تنازع نہیں بلکہ ایک مکمل تباہی ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں تقریباً 95 فیصد مکانات اور بلند عمارتیں تباہ کر دی ہیں۔ یہاں کے لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، اور دو ملین سے زائد افراد مکمل طور پر بے گھر ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل اس تعمیر نو کی اجازت دے گا؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اس کی مالی ذمہ داری کون اٹھائے گا؟ یہ ایک نہایت سنگین صورتحال ہے۔ اسرائیل نے غزہ کو تباہ کیا اور اب عرب ممالک سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ اس کی تعمیر نو کے اخراجات برداشت کریں، جو 700 ارب ڈالر سے زائد ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ابھی تعمیر نو کی بات کرنا قبل از وقت ہے، کیونکہ ہم جنگ بندی کے صرف پہلے مرحلے میں ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ اسرائیل ایک بار پھر اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا، اور غزہ پر دوبارہ قبضہ کرسکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل کو امریکی انتظامیہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کو غزہ کو تباہ کرنے کی کھلی اجازت دی ہے۔ ہم اس وقت نسل کشی کی جنگ، بھوک کی جنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ جب تک امریکہ اسرائیل کی حمایت کرتا رہے گا، اور انہیں نسل کشی و اخلاقی بھوک جاری رکھنے کی ترغیب دیتا رہے گا، تب تک تعمیر نو صرف ایک لفظ رہے گی، جس کی کوئی عملی حیثیت نہیں ہوگی۔ میرے خیال میں اس وقت سب سے ضروری کام یہ ہے کہ غزہ کے عوام کو نسل کشی، تباہی اور بھوک سے بچایا جائے، اور انسانی امداد کو غزہ میں داخل ہونے دیا جائے۔ لوگ واقعی بھوک سے مر رہے ہیں۔ اس وقت ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ان لوگوں کو زندہ رکھا جائے، نسل کشی اور بھوک کو روکا جائے، اس کے بعد ہی تعمیر نو پر بات کی جاسکتی ہے۔

مہر نیوز: آپ کی نظر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی حالیہ عالمی لہر نے غزہ کے سیاسی منظرنامے پر کیا اثر ڈالا ہے؟ کیا بین الاقوامی رائے عامہ اب اسرائیل کو عملی طور پر روک سکتی ہے؟

عبدالباری عطوان: اس وقت سب سے اہم بات جنگ بندی کو برقرار رکھنا ہے۔ میرے خیال میں دو ریاستی حل یا آزاد فلسطینی ریاست کی بات اب زیرِ بحث نہیں رہی۔ امریکہ، جو اس جنگ بندی اور نام نہاد امن منصوبے کا سرپرست ہے، دو ریاستی حل اور آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا۔ صدر ٹرمپ نے کئی بار واضح طور پر کہا کہ وہ کسی آزاد فلسطینی ریاست کو قبول نہیں کریں گے، اور وہ اسرائیل-عرب تنازع کے پائیدار حل کی تمام کوششوں کے خلاف رہے ہیں۔ یہی اصل مسئلہ ہے۔ میرا یقین ہے کہ فلسطینی عوام نہ صرف مغربی کنارے اور غزہ بلکہ پورے فلسطین میں اپنی آزاد ریاست چاہتے ہیں، کیونکہ پورا فلسطین ہمارا وطن ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل صرف 1948 میں قبضہ کیے گئے علاقوں کو برقرار رکھنا نہیں چاہتا، بلکہ وہ "گریٹر اسرائیل" کے قیام کا خواب دیکھ رہا ہے، جو نہ صرف پورے فلسطین بلکہ شام، لبنان، سعودی عرب کے کچھ حصے، عراق اور مصر تک پہنچ جاتا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اسرائیل پورے مشرق وسطیٰ پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے اور خطے کی تشکیل نو کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسرائیل ایران کے فوجی اور جوہری ڈھانچے کو بھی تباہ کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں اس معاملے میں بہت محتاط رہنا ہوگا۔ اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا، اور امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اس لیے ہمیں بہت زیادہ ہوشیار اور چوکنا رہنا چاہیے۔ میرے خیال میں امریکہ اور اسرائیل امن کے خواہاں نہیں ہیں۔ وہ تباہی کے ماہر ہیں، تعمیر کے نہیں۔ وہ پابندیاں لگانے اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں اندرونی مسائل پیدا کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، جن میں ایران، لبنان، شام اور مصر شامل ہیں۔ ہمیں ان ممالک کے حالات کا بخوبی علم ہے، اور ہمیں اسرائیل کے "گریٹر اسرائیل" منصوبے کے خلاف انتہائی احتیاط اور چوکسی کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔

مہر نیوز: جب حالات کچھ سنبھلیں گے، تو کیا اسرائیلی سیاسی رہنماؤں کے خلاف جنگی جرائم پر کوئی حقیقی احتساب ممکن ہے؟

عبدالباری عطوان: صہیونی قیادت کا مقصد تمام فلسطینیوں کا صفایا کرنا ہے۔ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا۔ غزہ قدرتی وسائل، خاص طور پر تیل کے ذخائر سے مالا مال ہے، اور اسرائیل و ٹرمپ اس علاقے سے اربوں ڈالر کمانا چاہتے ہیں۔ ان کا منصوبہ ہے کہ غزہ کے تمام باشندوں کو وہاں سے نکال کر اس تجارتی منصوبے کو عملی شکل دی جائے۔ میرا ماننا ہے کہ وہ اس منصوبے کو مرحلہ وار اور بتدریج نافذ کریں گے۔ فی الحال فلسطینیوں سے کہا جا رہا ہے کہ جنگ بندی ہو گئی ہے، لیکن بعد میں وہ کوئی بہانہ بنا کر اس جنگ بندی کی خلاف ورزی کریں گے۔ پھر انہی بہانوں کو بنیاد بنا کر اسرائیل کو عالمی سطح پر درپیش تنہائی کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ میرا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اسرائیل کے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں، اور ساتھ ہی اپنے ذاتی مفادات کے لیے بھی، جیسے کہ ایک رئیل اسٹیٹ بروکر۔ یہ ان کے لیے، ان کی کمپنیوں اور ان کے حلقے کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ غزہ کے عوام کو بے دخل کر کے وہاں بڑے پیمانے پر کاروبار کریں۔ وہ عرب دنیا سے پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ مشرق وسطی اب بھی جنگ کے دہانے پر ہے۔ جب تک موجودہ امریکی صدر اقتدار میں ہیں، وہ امن کے نہیں بلکہ جنگ کے صدر ہیں۔ وہ اسرائیل کو اندرونی طور پر اور عالمی سطح پر طاقتور بنانے آئے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کو 26 ارب ڈالر دیے اور جدید ہتھیاروں پر عائد پابندیاں ختم کر دیں، جس کا مطلب ہے کہ مزید جنگیں ہونے والی ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا، وہ اپنے منصوبے کو بتدریج نافذ کر رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں بہت زیادہ محتاط اور چوکنا رہنا ہوگا۔ جب تک اسرائیل کو یہ یقین ہے کہ کوئی مشرق وسطی کی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی، وہ مذاکرات کی طرف نہیں آئیں گے۔ لیکن اگر انہیں لگے کہ کوئی طاقت ان کا احتساب کرسکتی ہے، تو وہ مذاکرات پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔ بصورت دیگر، مشرق وسطی کئی دہائیوں بلکہ شاید صدیوں تک عدم استحکام کا شکار رہے گا۔

News ID 1935969

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha