11 اکتوبر، 2025، 1:30 PM

مشرق وسطی کے امور کی ماہر کی مہر نیوز سے گفتگو:

طوفان الاقصی نے فلسطینیوں کے ساتھ عالمی سطح پر یکجہتی کی نئی لہر پیدا کردی

طوفان الاقصی نے فلسطینیوں کے ساتھ عالمی سطح پر یکجہتی کی نئی لہر پیدا کردی

علاقائی امور کی ماہر زینب اصغریان نے کہا ہے کہ طوفان الاقصی آپریشن نے بلا شبہ دنیا میں مسئلہ فلسطین کو دوبارہ زندہ کیا اور عالمی سطح پر فلسطینی عوام کے ساتھ بے مثال یکجہتی کی لہر کو جنم دیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: صہیونی حکومت نے کئی دہائیوں تک مشرق وسطی میں اپنی عسکری برتری اور انٹیلیجنس کی بالادستی کا ایک تصور قائم کر رکھا تھا، لیکن طوفان الاقصی آپریشن نے صرف ایک صبح میں اس تصور کو پاش پاش کر دیا۔  

یہ کارروائی دشمن کی طاقت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور صہیونی حکومت عالمی سطح پر رسوا ہوئی۔

طوفان الاقصی کی دوسری سالگرہ کے موقع پر علاقائی امور کی ماہر زینب اصغریان نے مہر نیوز سے خصوصی گفتگو کی اور مسئلہ فلسطین پر طوفان الاقصی کے اثرات پر روشنی ڈالی۔

زینب اصغریان نے کہا کہ جنگ کے آغاز کے دو سال بعد غزہ عالمی بیداری کی علامت بن چکا ہے۔ اگرچہ ورلڈ بینک اور یورپی یونین کی رپورٹس کے مطابق غزہ میں انفراسٹرکچر اور رہائشی علاقوں کو 50 ارب ڈالر سے زائد نقصان پہنچا ہے، لیکن یہی انسانی المیہ عالمی رائے عامہ میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے گہری تبدیلی کا باعث بنا ہے۔ غزہ کی جنگ نے گزشتہ دو دہائیوں کے تمام واقعات سے زیادہ عالمی شعور کو بیدار کیا ہے۔ آج یورپ اور امریکہ میں آزاد میڈیا، تعلیمی ادارے اور سماجی تحریکیں فلسطینیوں کے حقوق پر زیادہ واضح اور دوٹوک انداز میں بات کر رہی ہیں۔ یہ تبدیلی عالمی سطح پر ایک نئی آگاہی کو جنم دے رہی ہے، جس نے صہیونی حکومت کی سیاسی اور اخلاقی حیثیت کو کمزور کردیا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی مزاحمت خصوصا حماس نے تمام تر عسکری دباؤ اور تباہی کے باوجود عرب دنیا اور مسلم معاشروں کی رائے عامہ میں نئی سیاسی و اخلاقی قبولیت حاصل کی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ طوفان الاقصی نے حماس کو ایک محض عسکری گروہ سے بڑھا کر ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت بنا دیا ہے۔ آج غزہ صرف میدان جنگ نہیں بلکہ ایک ایسا منظر ہے جہاں صہیونی حکومت کی شکست نے عالمی شعور کو بیدار کیا اور مزاحمت کی تصویر کو اقوام کی سیاسی یادداشت میں دوبارہ زندہ کیا۔

زینب اصغریان نے کہا کہ اگر فلسطین میں کوئی نیا سیاسی نظام قائم ہوتا ہے تو وہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی بیداری اور فلسطینیوں کی سیاسی حیثیت کی نئی پہچان پر مبنی ہوگا۔ اس وقت مزاحمتی قوتیں اپنی حکمت عملی کو دوبارہ ترتیب دے رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ کوئی ناکام نظام نہیں بلکہ ایسا لچکدار ڈھانچہ ہے جو ہر حملے کے بعد خود کو دوبارہ منظم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ موجودہ حالات میں مزاحمتی محور تین اہم کاموں پر توجہ دے رہا ہے: اپنی دفاعی طاقت اور سپلائی نیٹ ورک کو بحال کرنا، عوامی اور سفارت کاری کے ذریعے اپنی بات کو دنیا میں تسلیم کروانا، اور فلسطین کے مستقبل کے سیاسی عمل میں مؤثر کردار ادا کرنا۔ اگر یہ قوتیں اسی سوچ سے آگے بڑھ کر سیاسی عمل میں شامل ہوجائیں تو وہ فلسطین کے نئے نظام کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ طوفان الاقصی آپریشن نے دنیا بھر میں فلسطینیوں کے ساتھ بے مثال یکجہتی کی لہر پیدا کی، جس کا مظاہرہ لندن، پیرس اور نیویارک جیسے شہروں میں لاکھوں افراد کے مظاہروں، طلبہ تحریکوں اور شہری بائیکاٹ کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کی پالیسیوں کے خلاف آوازیں اب عرب دنیا سے نکل کر مغرب تک پہنچ چکی ہیں۔ یورپی تجزیہ کاروں کے مطابق مغربی حکومتوں اور عوام کے درمیان اسرائیل کے حوالے سے اختلافات مزید گہرے ہوگئے ہیں۔

زینب اصغریان نے کہا کہ اگرچہ عوامی سطح پر فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کی ایک مضبوط لہر سامنے آئی ہے، لیکن حکومتوں کی سطح پر ابھی تک کوئی متحد اور منظم عالمی اتحاد تشکیل نہیں پایا۔ اسرائیل کے ساتھ مختلف ممالک کے اسٹریٹجک مفادات اور سیکیورٹی وابستگیاں تل ابیب کے خلاف کسی عالمی محاذ کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ تاہم، کارنگی انسٹیٹیوٹ کے تجزیے کے مطابق، اسرائیل کی اخلاقی حیثیت کو بین الاقوامی سطح پر شدید نقصان پہنچا ہے، اور اس کے روایتی اتحادی بھی اب عوامی سطح پر اپنے حمایتی لہجے میں کمی لا رہے ہیں۔

اصغریان نے کہا کہ طوفان الاقصی کو ایک غیر رسمی مگر مؤثر عالمی اخلاقی محاذ کی بنیاد کہا جاسکتا ہے، جو عوامی رائے عامہ پر دیرپا اثرات چھوڑ رہا ہے۔ غزہ کی جنگ پر مغرب کا متضاد ردعمل موجودہ عالمی نظام کے بحران کی علامت ہے۔ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے تشدد کو روکنے میں ناکامی نے لبرل نظام اور عالمی انسانی حقوق کے تصور کو کمزور کردیا ہے۔ یورپی اور مشرق وسطیٰ کے کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ بحران مغرب کے دوہرے معیار کو بے نقاب کر رہا ہے اور عالمی جنوب میں عدم اعتماد کو بڑھا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں چین، روس اور ایران نے اخلاقی خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے حامی اور ثالث کے طور پر اپنا کردار مضبوط کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق، یہ رجحان دنیا میں کثیر قطبی نظام کی طرف منتقلی کی علامت ہوسکتا ہے جہاں مشروعیت صرف مغربی عسکری طاقت سے نہیں بلکہ عدالت پسندی اور عوامی بیانیوں سے حاصل ہوتی ہے۔ غزہ کی جنگ مغرب کی اخلاقی ساکھ اور بین الاقوامی اداروں کی کارکردگی کا امتحان تھی۔ اگرچہ اس امتحان کا نتیجہ ابھی مکمل نہیں ہوا، لیکن یہ واضح ہوا ہے کہ دنیا پرانے عالمی نظم سے نکل کر ایک نئے، کثیر القطبی اور اقدار کی ازسرنو تعریف کے دور میں داخل ہو رہی ہے۔

News ID 1935881

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha