مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ الجزیرہ‘ کو دیے گئے انٹرویو کے دوران اس کے جواب میں اسحاق ڈار نے ابتدا میں کہا کہ ’سلامتی کونسل کے طرز پر ایک طریقہ کار وضع کیا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر، انہوں نے ان ممالک پر بہت سخت پابندیاں عائد کی ہیں جو ان کی بات نہیں مانتے، اور یہ کسی بھی ملک کے لیے ایک بہت شدید اقتصادی دھچکا یا تکلیف کا سبب بن سکتی ہیں’۔
انٹرویو کے دوران قطر میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیل حملے کا بھی بھی ذکر آیا، اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے کہا کہ کسی خودمختار ملک پر حملہ کرنے کی اسرائیل کی وجوہات ’مکمل طور پر بے بنیاد‘ ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ جب یہ حملہ ہوا تو قطر، امریکا اور مصر کے ساتھ مل کر غزہ میں امن قائم کرنے کے لیے مذاکرات کی ثالثی کر رہا تھا، اسحٰق ڈار نے اسرائیل کی اس کارروائی کو ’غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا۔
انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل، مشرقِ وسطیٰ کے متعدد ممالک پر حملہ کر چکا ہے اور بین الاقوامی قوانین، انسانی ہمدردی کے اصول، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور سلامتی کونسل کی قراردادیں ایک ایسے ملک پر بالکل بھی اثر انداز نہیں ہو رہیں جو بار بار اپنی مرضی کے مطابق اقدامات کرتا ہے۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ کثیرالجہتی نظام کو ابھی فوری طور پر بہت سنگین اصلاحات کی ضرورت ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل دنیا میں امن قائم رکھنے کے لیے بنی ہے، اور اگر اس کی قراردادوں کو محض ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے، جیسا کہ کئی سالوں سے اسرائیل، غزہ اور فلسطین جبکہ بھارت، کشمیر میں کر رہا ہے، تو ہم اس کثیرالجہتی نظام سے کیا توقع رکھیں؟’
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا دنیا کے تمام مسلمان ممالک برابر وزن رکھتے ہیں اور ’وہ کردار ادا کر رہے ہیں جو انہیں کرنا چاہیے؟‘ تو اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان کا یقین ہے کہ چاہے کوئی ریاست بڑی ہو یا چھوٹی، اس کی ’عزت اور وقار یکساں ہونا چاہیے‘۔
آپ کا تبصرہ