17 اگست، 2025، 6:38 PM

مہر نيوز کی خصوصی رپورٹ؛

پوٹن اور ٹرمپ کی آلاسکا میں ملاقات؛ تاریخی مگر بے نتیجہ

پوٹن اور ٹرمپ کی آلاسکا میں ملاقات؛ تاریخی مگر بے نتیجہ

امریکہ اور روس کے صدور کی آلاسکا میں ہونے والی سربراہی ملاقات کو عالمی ذرائع ابلاغ نے تاریخی قرار دیا، تاہم یوکرین جنگ کے بارے میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ بے نتیجہ ثابت ہوگئی۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی حالیہ ملاقات دنیا بھر کے سیاسی اور سفارتی حلقوں کی نگاہوں کا مرکز بنی۔ اس ملاقات کو یوکرائن جنگ کے تناظر میں ایک اہم موقع سمجھا جا رہا تھا، لیکن توقعات کے برعکس اس سے کوئی واضح یا ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ مبصرین کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان اگرچہ یوکرائن تنازع اور باہمی اختلافات پر تفصیلی گفتگو ہوئی، تاہم جنگ کے خاتمے یا کسی ممکنہ امن فارمولے کے حوالے سے عملی پیش رفت نہ ہونے کے باعث یہ ملاقات زیادہ تر علامتی اہمیت تک محدود رہی۔

 اطالوی تجزیہ کار جوزپے ماسالا کے مطابق انکوریج آلاسکا میں روس اور امریکا کے صدور کی یہ ملاقات بلاشبہ گذشتہ نصف صدی کی سب سے نمایاں اور پراثر ملاقاتوں میں سے ایک تھی۔ عالمی سیاست میں علامات اور علامتی زبان اپنے اندر گہرا پیغام رکھتی ہیں اور آلاسکا اجلاس بھی اسی کا مظہر تھا۔

اجلاس کے دوران روسی صدارتی طیارے کو امریکی F-35 طیاروں نے اسکواڈرن کی صورت میں خوش آمدید کہا، پوٹن کے لیے فرش قرمز بچھایا گیا، امریکی صدر خود استقبال کے لیے موجود تھے جبکہ مختلف مسلح افواج کے نمائندہ گارڈ آف آنر نے استقبالیہ پیش کیا۔ یہ تمام اشارے دنیا کو یہ پیغام دیتے تھے کہ روس اب عالمی برادری میں تنہا نہیں ہے بلکہ دوبارہ ایک بڑی طاقت کے طور پر تسلیم کیا جارہا ہے۔ یہ پیغام اپنی نوعیت میں خطرناک اور دور رس نتائج کا حامل ہے۔

روس کی طرف سے بھی علامتی پیغامات دیے گئے۔ وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سویٹ شرٹ میں CCCP (سابق سوویت یونین) کا نشان لیے اجلاس میں شریک ہوئے۔ یہ روس کی جانب سے ایک واضح اعلان تھا کہ یوکرین کی جنگ نے انہیں پھر سے ایک عالمی طاقت کے طور پر تسلیم کرایا ہے، وہی مقام جو سوویت یونین کے انہدام کے بعد کھوگیا تھا۔

ابتدائی پروگرام کے مطابق صدر پوٹن اور صدر ٹرمپ کو مترجمین کے ساتھ براہ راست ملاقات کرنی تھی، جس کے بعد چھ، چھ افراد پر مشتمل دونوں وفود کے درمیان اجلاس اور آخر میں ایک ورکنگ بریک فاسٹ ہونا تھا۔ تاہم امریکیوں نے اجلاس سے قبل ڈھانچے میں بڑی تبدیلی کردی۔ طے پایا کہ دونوں صدور کی براہ راست ملاقات نہیں ہوگی بلکہ مذاکرات میں طرفین سے دو اعلی نمائندے شریک ہوں گے۔ امریکی جانب سے ایلچی اسٹیو وٹکوف اور وزیر خارجہ مارکو روبیو، جبکہ روسی جانب سے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور پوتین کے مشیر یوری اوشاکوف اجلاس میں شامل کیے گئے۔

یوں اگرچہ اس اجلاس کو بظاہر تاریخی کہا گیا لیکن یوکرین جنگ کے خاتمے پر کسی عملی نتیجے کے بغیر اختتام پذیر ہوا۔

یوکرائن تنازع 

آلاسکا میں امریکا اور روس کے صدور کے درمیان ہونے والے حالیہ اجلاس میں یوکرائن تنازع کو غیر معمولی اہمیت حاصل رہی۔ رپورٹ کے مطابق امریکی اور یورپی فریقین نے فوری جنگ بندی کی تجویز پیش کی، تاہم روس نے اسے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اس سے صرف یوکرائن کو فائدہ ہوگا جو ایک مشکل وقت میں دوبارہ سنبھلنے کا موقع ملے گا۔ حیرت انگیز طور پر صدر ٹرمپ نے اس مطالبے پر اصرار نہیں کیا اور حتی کہ اگر روس جنگ بندی پر آمادہ نہ ہو تو کسی نئی پابندی یا انتقامی اقدام کی دھمکی دینے سے بھی اجتناب کیا۔ مبصرین کے مطابق یہ واضح اشارہ ہے کہ مذاکراتی میز پر پوٹن کو برتری حاصل تھی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ، روس اور یوکرین کے درمیان سہ فریقی اجلاس کے لیے کوئی تاریخ طے نہیں ہوئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فریقین عملا میدان جنگ کو ہی طاقت کا اصل فیصلہ کن عنصر مانتے ہیں۔ 

روسی ماہر سیاست و معیشت، ایلینا پانینا کے مطابق، ٹرمپ کا محتاط رویہ اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ اب یوکرائن اور یورپ کو تنہا چھوڑتے ہوئے صرف ثالثی کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے، جبکہ اصل بوجھ ماسکو کے مخالفین پر ہی ڈالنا چاہتا ہے۔ امریکہ اپنے بڑے اسٹریٹجک ہدف میں پہلے ہی کامیاب ہوچکا ہے۔ اس نے روس کے ساتھ یورپ کے قریبی تعلقات کو توڑ کر براعظم یورپ کی مسابقتی طاقت کو کمزور کر دیا۔ روس سستے خام مال اور ایک وسیع مارکیٹ کی شکل میں یورپ کے لیے بنیادی سہارا تھا، جسے موجودہ بحران نے ختم کر دیا۔

اقتصادی پہلو

اگرچہ اجلاس میں زیادہ تر بحث سیاسی معاملات پر رہی، تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان اقتصادی تعاون کے امکانات پر بھی غور کیا گیا۔ شمالی خطے کی تجارتی و معاشی اہمیت پر بات ہوئی۔ ساتھ ہی روسی صدر پوٹن نے حال ہی میں ایک فرمان پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت غیر ملکی کمپنیوں بالخصوص امریکی کمپنی ایکسن موبائل کو مخصوص شرائط پر اپنے حصص واپس لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ اجازت اسی صورت میں دی جائے گی جب مغربی پابندیوں کے خاتمے اور منصوبے کے لیے ضروری ٹیکنالوجی و فنڈز کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

ایکسن کے ساتھ ساتھ اس منصوبے میں روسی کمپنی پترو روس، بھارتی کمپنی ONGC Videsh اور جاپانی کمپنی SODECO بھی شریک ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ اقدامات اس بات کا عندیہ ہیں کہ واشنگٹن اور ماسکو اپنے تعلقات کو بتدریج معمول پر لانے کے خواہاں ہیں، جس کا سب سے بڑا نقصان یورپ کو ہوگا جو پہلے ہی روسی توانائی اور منڈیوں سے محروم ہوچکا ہے۔

دفاعی پہلو

چونکہ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسٹ اور ان کے روسی ہم منصب آندری بلوسوف اجلاس میں شریک تھے، اس لیے فوجی مسائل کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ خاص طور پر نیو اسٹارٹ معاہدہ پر بات چیت کا امکان زیادہ تھا، جو امریکہ اور روس کے درمیان اسٹریٹجک جوہری ہتھیاروں کو محدود کرتا ہے اور 5 فروری 2026 کو ختم ہو رہا ہے۔ دونوں ممالک دوبارہ مذاکرات کے خواہش مند ہیں، تاہم فرق یہ ہے کہ امریکہ چاہتا ہے چین بھی اس معاہدے میں شامل ہو، اور اسی لیے واشنگٹن ماسکو سے توقع رکھتا ہے کہ وہ بیجنگ کو اس پر آمادہ کرے۔ معاملے کی حساسیت کے باعث اجلاس کے دوران کسی فریق نے اس پر کھل کر گفتگو نہیں کی، مگر چونکہ معاہدے کی میعاد ختم ہونے میں چھ ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اس پر بات نہ ہوئی ہو۔

نتیجہ

اگرچہ آلاسکا اجلاس کسی واضح نتیجے پر نہیں پہنچ سکا، مگر اس کی علامتی اہمیت بہت بڑی تھی۔ اس ملاقات نے روس کو ایک بار پھر اس کے تاریخی مقام کے قریب کر دیا ہے اور ایک بڑی عالمی طاقت کے طور پر پہچان دلادی۔ علاوہ ازیں یوکرائن اور یورپ اس کھیل میں ثانوی کردار ادا کررہے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو انہیں مکمل یا جزوی طور پر منظر سے ہٹایا بھی جا سکتا ہے۔

News ID 1934884

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha