6 جولائی، 2025، 11:15 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

عاشورا مقاومت کی علامت، لشکر حسینی و یزیدی کی جنگ کبھی ختم نہیں ہوسکتی

عاشورا مقاومت کی علامت، لشکر حسینی و یزیدی کی جنگ کبھی ختم نہیں ہوسکتی

حضرت امام حسینؑ کا قیام صرف شیعوں کے لیے نہیں بلکہ ہر مظلوم اور حریت پسند کے لیے ظلم کے خلاف جدوجہد کا دائمی نمونہ بن چکا ہے، جس سے مشرقی اور مغربی اہل فکر نے بھی الہام حاصل کیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، ثقافتی، الناز رحمت نژاد: قیام عاشورا محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ مزاحمت کا زندہ اور جاوید نمونہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام اور ان کے وفادار اصحاب نے ظلم اور جبر کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوکر تاریخ میں خود کو مزاحمت کا ایسا نشان بنا دیا جس کی روشنی آج بھی مظلومین کے لیے مشعل راہ ہے۔

امام حسین (ع) اور ان کے اصحاب نے نہ صرف باطل کے چہرے کو بے نقاب کیا بلکہ منافقین کو بھی رسوا کیا اور شہادت کی روح کو زندہ کیا۔ عاشورا کی تحریک نے انقلابی قیاموں کی بنیاد رکھی۔ عصر حاضر میں یہی جذبۂ عاشورا صہیونی غاصبوں کے خلاف مزاحمت کرنے والی تحریکوں کا نظریاتی سرچشمہ بن چکا ہے۔

معروف مغربی مفکر فرانسس فوکویاما نے کہا کہ شیعہ ایک ایسا پرندہ ہے جو ہماری پہنچ سے دور اڑتا ہے۔ اس کے دو پر ہیں؛ ایک سبز، یعنی عدالت و مهدویت، اور دوسرا سرخ، یعنی عاشورا و شہادت۔ اس پرندے کا لباس ولایت فقیہ ہے جو اسے ناقابل شکست بناتا ہے۔

انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی، بعثی افواج کے خلاف ایرانی مزاحمت اور آج کے دور میں حزب اللہ لبنان، انصار اللہ یمن، حشد الشعبی عراق، حماس اور جہاد اسلامی فلسطین جیسے گروہوں کی استقامت، عاشورائی جذبے کی ہی مظاہر ہیں۔

آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران بھی یہی روح تھی جس نے ایرانی افواج کو اسلحہ سے لیس دشمن کے سامنے فتحیاب کیا۔ امام خمینیؒ نے فرمایا تھا: ہم امام حسین (ع) کی طرح جنگ میں داخل ہوئے ہیں اور امام حسین (ع) کی طرح شہادت ہمارا مقدر ہے۔

امریکی دانشور پرفیسر بیل نے جنگِ ایران و عراق کے دوران کہا کہ ایرانی انقلاب کے جاری رہنے کا ایک اہم راز شہادت طلبی ہے۔

جان ال اسپوزیتو جیسے مغربی تجزیہ کار اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ انقلابِ اسلامی نے نہ صرف عالم اسلام مخصوصا عرب دنیا کو متاثر کیا اور کئی تحریکوں کے لیے محرک و الہام کا باعث بنا۔

جنوبی لبنان کے جوانوں نے انقلاب اسلامی ایران سے متاثر ہوکر اور قیام امام حسین علیہ السلام سے الہام لیتے ہوئے، صہیونی-امریکی دشمن کے خلاف مزاحمت کا راستہ اپنایا۔ حزب اللہ لبنان کے شہید کمانڈر سید حسن نصراللہ نے کہا تھا: ہم واقعۂ کربلا سے اپنی آخرت کی تعمیر کا راستہ سیکھتے ہیں، اور ہم اس کارنامے کو دہراسکتے ہیں جو امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں نے انجام دیا تھا۔

سید حسن نصراللہ نے عاشورائی فکر پر تاکید کرتے ہوئے کہا: ہم امام حسینؑ کو لبیک کہتے ہیں۔ ہم حسینؑ کے ساتھ ہیں اور روزانہ وہی موقف اپناتے ہیں جو حسینؑ نے تاریخ میں ثبت کیا۔ ہم طاغوتی طاقتوں اور ان سب کو جو ہماری شکست کی امید لگائے بیٹھے ہیں، یہی کہتے ہیں: 'هیهات منا الذلة' (ذلت ہم سے دور ہے)۔

ایران میں انصار اللہ یمن کے ثقافتی نمائندے احمد الامام نے مہر نیوز سے گفتگو میں کہا: امام حسین (ع) صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے قیام و مقاومت کا ایک مکمل نمونہ ہیں۔ ایران، لبنان، یمن، عراق اور فلسطین میں مزاحمت کی موجودہ شکل امام حسین (ع) کے قیام سے متاثر ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ امام حسین (ع) کی تحریک قرآن کی بنیاد پر تھی، جس نے دنیا کو آزادی، وفاداری اور عدل کا درس دیا۔ آج کی انسانیت کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ وفائے عہد ہے۔ اور یہ حسینؑ نے دنیا کو سکھایا۔

انصار اللہ کے سربراہ عبدالملک بدرالدین الحوثی نے بھی اس امر پر زور دیا کہ اسلام ہمیں امام حسین (ع) کی مانند دشمن کے خلاف ڈٹ جانے کا درس دیتا ہے۔ اسی عاشورائی تفکر نے یمن کو 8 سالہ سعودی-امریکی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی ہمت دی۔ نہ صرف یمن شکست سے بچا بلکہ سعودی عرب کو جنگ کے خاتمے کی کوششوں پر مجبور کر دیا۔

عراق کی مزاحمتی تحریک حشد الشعبی کے مرکزی رہنما اور نُجَباء کے جنرل سیکریٹری شیخ اکرم کعبی نے کہا: ہم خود کو حضرت امام خمینی (رح) کے مکتب کا شاگرد سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ خدا پر توکل کے ذریعے اسلامی ممالک کو استکبار کے چنگل سے آزاد کرایا جا سکتا ہے۔ قیام عاشورا نہ صرف ایک واقعہ بلکہ ایک دائمی اور عالمی نظریہ ہے، جو ہر اس انسان کے لیے مشعل راہ ہے جو ظلم و استکبار کے خلاف قیام کرنا چاہتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی، آیت اللہ سید علی خامنہ‌ای اس حوالے سے کہتے ہیں: لشکر حسینی اور لشکر یزیدی کی جنگ کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ شمشیر و نیزے کے دور میں یہ جنگ ایک صورت میں تھی، اور آج کے دور میں یہ جنگ ایٹم اور مصنوعی ذہانت جیسے ہتھیاروں کے ساتھ جاری ہے۔

واقعۂ عاشورا اور قیام امام حسینؑ صرف شیعہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ نہیں بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں اور حریت پسندوں کے لیے مزاحمت اور بیداری کا عالمگیر پیغام ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی مختلف اقوام، ادیان اور تحاریکِ آزادی نے اس عظیم قربانی سے الہام لیا ہے۔

ہندوستان کے روحانی پیشوا موہن داس گاندھی نے امام حسینؑ کو تحریکِ آزادی کا مرکزی نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے امام حسینؑ، اس عظیم شہید اسلام کی زندگی کو بغور پڑھا ہے۔ اگر ہندوستان کو ایک دن آزاد ہونا ہے، تو اسے امام حسینؑ کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔

اسی طرح بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی امام حسینؑ کی قربانی کو دنیا کی سب سے روشن مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ قربانی اور بہادری کا ایسا نمونہ جو امام حسینؑ نے کربلا میں پیش کیا، دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آتا۔ تمام مسلمانان عالم کو اس عظیم شہید سے سبق لینا چاہیے۔

صرف اسلامی دنیا ہی نہیں بلکہ مغربی دنیا کے باشعور افراد نے بھی عاشورا کی روشنی میں حق کا راستہ اپنایا۔ اٹلی کے مشہور صنعتکار خاندان اونیلی سے تعلق رکھنے والے ایڈورڈ اونیلی نے اسلام قبول کرنے کے بعد مکتب عاشورا کو اپنایا اور مذہبی تعلیم کے لیے ایران کے شہر قم میں قیام کیا۔ افسوس کہ انہیں صہیونی قوتوں نے شہید کر دیا۔

اسی طرح ڈایانا ترون گوسو، ایک امریکی خاتون جو مسلمان ہوکر "هاجر حسینی" کہلائیں، نے امام حسینؑ کو اپنے ایمان کا سرچشمہ قرار دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ عاشورا کی روح نے انہیں اسلام کے دائرے میں داخل کیا۔

امام حسینؑ نے ظلم یزید کے خلاف کربلا میں قیام کیا، اور آج فلسطین میں جو جدوجہد صہیونی ظلم کے خلاف جاری ہے، وہ اسی حسینی فکر کا تسلسل ہے۔ کربلا میں امامؑ حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب نے اسلام کے اصولوں کی حفاظت کے لیے جان دی، آج بھی فلسطینی مزاحمت کار، مجاہدین، اور عالمی حریت پسند اسی راہ حق پر جان نچھاور کر رہے ہیں۔

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت اور عدل کے لیے قیام کا پیغام نہ صرف زندہ ہے بلکہ آج کی دنیا میں بھی اتنا ہی مؤثر اور ضروری ہے جتنا چودہ صدیاں قبل تھا۔ امام حسینؑ کا پیغام، وقت و جغرافیہ سے ماورا ہو کر ہر مظلوم کے دل میں امید کی شمع روشن کرتا ہے۔

News ID 1934147

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha