مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: 22 جون کی شب کے ابتدائی لمحات میں دنیا ایک نئے سانحے اور جارحیت کی داستان سے سامنا کر رہی تھی۔ تقریباً دو بجے رات امریکہ کی فضائی اور بحری افواج نے ریڈار سے بچنے والے بمبارجہاز B2 اور تماہاوک میزائلوں سے ایران کے تین جوہری مراکز — نطنز، فردو اور اصفہان — کو نشانہ بنایا۔ یہ کارروائی نہ صرف سفارتی ریڈ لائن کی خلاف ورزی تھی بلکہ بین الاقوامی نظام میں "قوانین پر مبنی نظم" کے تصور کا بھی خاتمہ تھی۔
یہ حملہ اسرائیل کی درخواست اور اس کی بے بسی کو دور کرنے کے لیے کیا گیا تھا، جبکہ ایران اس وقت بھی NPT کا باقاعدہ رکن اور اپنی جوہری سرگرمیوں کی نگرانی بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے تحت کر رہا تھا۔ تاہم امریکہ اور اسرائیل نے اقوام متحدہ کی اجاز ت کے بغیر اور بغیر کسی ثبوت پیش کیے کہ ایران امن پسند جوہری پروگرام سے ہٹ گیا ہے، اس معاہدے کے ایک متعہد رکن کو نشانہ بنایا۔
اسرائیل کی بے بسی کا عروج؛ کیوں ٹرمپ مداخلت پر مجبور ہوا؟
اگرچہ 24 جون کو ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہوئی، مگر ایران پر جارحیت کے ابتدائی دنوں میں اسرائیل نے ایران کے دفاعی و صنعتی بنیادی ڈھانچے پر حملے کیے لیکن اپنی حکمت عملی میں متعدد ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور پر فردو کے زیر زمین مرکز کو تباہ کرنے میں ناکامی اسرائیل کے لیے سب سے بڑا دھچکا تھا۔ اس کے برعکس، تل ابیب، حیفا اور عسقلان جیسے شہروں پر ایران کے درست اور طاقتور میزائلوں کی بارش جاری رہی۔
یہ ناکامیاں تل ابیب میں خوف و ہراس کا باعث بنیں۔ موساد کی رپورٹس سے معلوم ہوا کہ اسرائیل کے محدود اور غیر موثر حملے ایران کی جوہری ترقی کو نہ روک سکے بلکہ ایران اور تیزی سے اپنی صلاحیتیں بڑھانے کا مصمم ارادہ کیا۔ دوسری طرف سے ایرانی فضائیہ کا دفاعی نظام بھی اسرائیلی حملوں کے خلاف فوری طور پر تیار ہو گیا اور اسرائیل کی مذبوحانہ کوششیں ناکام ہو گئیں۔ نتیجتاً، اسرائیلی حکام، خاص طور پر وزیر اعظم نتن یاہو، نے سمجھا کہ امریکہ کی براہ راست مداخلت کے بغیر ایران پر قابو پانا ممکن نہیں، اور جنگ بندی اس ناگفتہ بہ صورتحال کی علامت تھی۔
نتیجتاً نتن یاہو نے امریکی حکام پر دباؤ بڑھایا اور "آئیپیک" لابی کے ذریعے امریکہ میں پیغام پہنچایا کہ اگر امریکہ پیچھے ہٹا تو اسرائیل غیر روایتی حربے استعمال کرے گا۔ ٹرمپ کو مشکل صورتحال کا سامنا تھا؛ ایک طرف وہ جنگ نہ کرنے کا وعدہ کر چکے تھے، دوسری طرف ان کا اہم اتحادی اسرائیل شکست کے قریب تھا۔
آخرکار، وائٹ ہاؤس کے سکیورٹی مشیروں نے مشورہ دیا کہ امریکہ کو اسرائیل کی مدد کرنی چاہیے۔ سیاسی طور پر بھی طویل جنگ کے باعث ٹرمپ کی صہیونیت نواز تصویر متاثر ہو سکتی تھی۔ چنانچہ، ایران کے حساس جوہری مراکز پر حملہ کرنا ایک سیاسی اور دباؤ کی کارروائی تھا، نہ کہ امریکہ کی کوئی حکمت عملی کی شروعات۔ لہٰذا، امریکہ کی فوجی مداخلت ٹرمپ کی طاقت کا مظاہرہ کم اور ایران کے مقابلے میں اسرائیلی حکومت کی اسٹریٹجک ناکامی کا ایک غیر علانیہ اعتراف زیادہ تھی۔ واشنگٹن ایک ایسی جنگ میں کود پڑا جس کا آغاز اس نے خود نہیں کیا تھا، لیکن اسے محسوس ہوا کہ اس کے مطلوبہ علاقائی نظم و استحکام کی بقا خطرے میں ہے۔ ٹرمپ کی مداخلت دراصل ایک پرانے اتحادی کی بے بسی کی علامت تھی، جو اب علاقے میں اپنی بقا اکیلے برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔
نظامِ عدمِ اشاعہ کے سنہری اصول کی زوال پذیری
دو ایٹمی طاقتوں کی جانب سے ایک NPT رکن ملک کے تصدیق اور نگرانی شدہ جوہری مراکز پر حملہ، اس معاہدے کی مشروعیت اور اس کے اہداف کو سب سے بڑا دھچکا ہے۔ ایران نہ صرف اس معاہدے کا رکن ہے بلکہ تمام سرگرمیاں بین الاقوامی قواعد کے تحت شفاف طریقے سے چل رہی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل نے بغیر کوئی ثبوت دکھائے ان مراکز کو تباہ کیا، جو بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزی ہے اور NPT کے بنیادی اصول کو چیلنج کرتا ہے۔
ایران کے حکام بالا نے بلا فاصلہ اس حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ NPT کی عملی موت ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا کہ اب کوئی ترقی پذیر ملک NPT پر اعتماد نہیں کر سکتا کیونکہ یہ حفاظت فراہم نہیں کرتا بلکہ نشانہ بنانے کا بہانہ بنتا ہے۔ ایرانی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل نے اعلان کیا کہ ایران اپنی تمام اضافی شرائط کو معطل کر دے گا اور اگر دشمنی جاری رہی تو NPT سے نکلنے کے آپشن کو بھی زیر غور لائے گا۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل، جو خود ایٹمی ہتھیار رکھتا ہے، NPT کا رکن نہیں اور اس کا کوئی نگرانی نظام بھی نہیں۔ امریکہ بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ دوہری ٹیکنالوجی فروخت کر کے نظام تعہد کو آشکارا توڑ دیتا ہے۔ عالمی برادری سے سوال یہ ہے کہ آیا NPT عالمی امن و سلامتی کا ضامن ہے یا مستقل ممالک کو کنٹرول کرنے کا ایک حربہ؟
ایران نے بارہا کہا ہے کہ جب تک این پی ٹی کے معاہدات کے تحفظ کا کوئی حقیقی میکانزم ترتین نہ دیا جائے، اس معاہدے میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سابق سیکریٹری اعلیٰ قومی سلامتی کونسل علی شمخانی، نے ایک ٹویٹ میں لکھا: ایک ایسے ملک پر حملہ جو این پی ٹی (NPT) کا رکن ہو اور جس کی تمام جوہری تنصیبات پرامن مقاصد کے لیے ہوں، ایٹمی بدامنی کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ اگر این پی ٹی اپنے رکن ممالک کا تحفظ نہیں کر سکتا، تو پھر اس معاہدے کا وجود ہی بے معنی ہو جاتا ہے۔
آخرکار، اس فوجی جارحیت سے جو تلخ حقیقت سامنے آئی ہے وہ بہت سے ترقی پذیر ممالک کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ این پی ٹی (NPT) میں رکنیت—جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے—کوئی محافظ ڈھال نہیں، بلکہ طاقتور جوہری ممالک کے لیے ایک ایسا ذریعہ بن سکتی ہے جس کے ذریعے وہ دیگر ممالک کی شناخت کر کے ان پر حملہ کریں۔ یہ صورتِ حال عدمِ اشاعہ کے نظام کی تاریخ میں ایک خطرناک موڑ ہے۔ اگر عالمی برادری نے اس اقدام کے خلاف کوئی مؤثر ردعمل نہ دیا، تو این پی ٹی کی ساکھ بتدریج ختم ہو سکتی ہے اور مستقبل میں ایسے سانحات کا دہرایا جانا بعید از قیاس نہ ہوگا۔
ایٹمی بنیادی ڈھانچوں پر بمباری، مگر علم پر نہیں — ایران کی جوہری ٹیکنالوجی کی دھڑکن بدستور رواں
واشنگٹن اور تل ابیب کی اس دعوے کے برعکس کہ ایران کا جوہری انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے، زمینی شواہد اور اسلامی جمہوری ایران کے اعلیٰ حکام کے بیانات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام اب بھی فعال اور مستحکم ہے، اور افزودگی (enrichment) کے دائرے کو کوئی ناقابلِ تلافی نقصان نہیں پہنچا۔ ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ محمد اسلامی نے حملے کے اگلے روز واضح کیا کہ:ہماری یورینیم افزودگی کی کوئی سرگرمی رکی نہیں ہے، اور نطنز و فردو میں واقع بنیادی تنصیبات کے باوجود کہ وہ حملے کا نشانہ بنیں، فوری بحالی کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ اعلیٰ سطح کے افزودہ یورینیم اور جدید سینٹری فیوجز (centrifuges) مختلف مقامات پر محفوظ انداز میں ذخیرہ کیے گئے ہیں اور افزودگی کا کچھ عمل ملک بھر میں بکھرے اور محفوظ یونٹوں میں جاری ہے۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران نے پچھلے دو عشروں کی مسلسل پابندیوں اور دباؤ کے باوجود، سخت انحصار کی سطح سے آگے بڑھ کر اب مکمل مقامی خودکفالت (indigenous capability) حاصل کر لی ہے۔
آج ایران کی افزودگی کی مہارت کسی مخصوص فزیکل مرکز یا تنصیب میں قید نہیں، بلکہ ایک ایسی سائنسی، انسانی، اور ٹیکنالوجیکل انفراسٹرکچر کا حصہ بن چکی ہے جو پورے ملک میں جڑ پکڑ چکا ہے۔یہی وہ مرحلہ ہے جہاں کسی قوم کی جوہری صلاحیت صرف ایک سہولت نہیں بلکہ ایک قومی دانش بن جاتی ہے۔ جو بموں سے تباہ نہ ہونے والی اور دباؤ سے پیچھے ہٹنے والی نہیں۔
یہاں تک کہ مغربی تجزیہ کار بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ جوہری تنصیبات پر بمباری کو ایران کے جوہری پروگرام کی مکمل تباہی تصور نہیں کیا جا سکتا؛ کیونکہ ایران نے اندرونِ ملک ایک ایسا مقامی نظام قائم کر لیا ہے جو تیز رفتار بحالی اور عملی لچک (operational flexibility) کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وہ موڑ ہے جہاں خودمختار ممالک "ٹیکنالوجیکل انحصار" (technological dependence) سے نکل کر "ٹیکنالوجیکل بازدارندگی" (technological deterrence) تک پہنچتے ہیں۔ یعنی ایسی دفاعی طاقت جو کسی ہتھیار کے بغیر ہی خود کو برقرار رکھنے اور دوبارہ منظم ہونے کی اہلیت رکھتی ہے۔
آخرکار، امریکہ اور صہیونی حکومت کی مشترکہ جارحیت نے جس حقیقت کو نمایاں کیا، وہ ان کی طاقت نہیں بلکہ ایران کے قومی عزم اور مقامی سائنسی ٹیکنالوجی کو قابو نہ پا سکنے کی بے بسی تھی۔
ایران کا جوہری پروگرام اب اس اسٹریٹیجک بلوغت کی سطح پر پہنچ چکا ہے جہاں وہ نہ صرف ناقابلِ توقف ہے، بلکہ ہر بیرونی دباؤ کے نتیجے میں مزید مضبوط اور گہرائی میں جڑیں پکڑنے والا بن چکا ہے
آپ کا تبصرہ