مہر خبررساں ایجنسی، دین و عقیدہ ڈیسک: اہل بیتؑ کی زیارت بہترین اعمال میں سے ہے۔ ہر امامؑ کا اپنے ماننے والوں پر ایک حق ہوتا ہے۔ اس حق کی ادائیگی میں ان کے روضے کی زیارت ایک اہم عمل ہے۔ عید غدیر کے دن کے اعمال میں عید کی نماز اور زیارت غدیریہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اگرچہ یہ دونوں اعمال خاص صرف اسی دن کے لیے نہیں بلکہ روایات کے مطابق دوسرے دنوں میں بھی ان کو انجام دینا مستحب ہے۔
زیارت غدیریہ شیعہ معارف کا ایک گرانقدر خزانہ ہے جو غدیر کے واقعے اور اہل بیتؑ کی امامت و ولایت کے مرتبے کے بارے میں ہے۔ اس زیارت میں اعلی اور بلیغ زبان استعمال کی گئی ہے جو نہ صرف واقعۂ غدیر کی یاد تازہ کرتی ہے بلکہ امامت کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرکے شیعوں کے عقائد کو گہرا اور مستحکم بناتی ہے۔
یہ زیارت دراصل وہ متن ہے جس میں امام ہادیؑ نے غدیر کے دن امیرالمؤمنینؑ کے مقام و مرتبے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ زیارت غدیریہ درحقیقت شیعہ عقیدے کے بنیادی اصولوں، خاص طور پر امامت اور ولایت کی ایک مکمل تشریح ہے۔ اس کا متن نہایت جامع اور اس کے معانی نہایت گہرے ہیں۔ اس کا اصل مواد امیرالمؤمنینؑ کی فضیلتوں کے بیان، ان کی امامت و ولایت کے مقام کی وضاحت اور شیعہ عقائد کے بنیادی خطوط کے تعارف پر مشتمل ہے۔
زیارتِ غدیریہ واقعۂ غدیر کو صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ دینِ اسلام کی بنیاد اور اس کا مرکزی ستون قرار دیتی ہے۔ اس زیارت میں امیرالمومنینؑ کے ساتھ بیعت کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ بیعت محض ایک لمحاتی یا وقتی عمل نہیں بلکہ ایسا پیمان ہے جسے ہر دور میں تازہ کرتے رہنا چاہیے۔
واقعۂ غدیر فقط سنہ 10 ہجری کا ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ یہ خدا کی طرف سے نبی کریمؐ کے جانشین کے تعین کا اظہار اور ان کی رسالت کے تسلسل کا عملی مظہر ہے۔ یہ واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک سنگِ میل ہے جو امت مسلمہ کو ہدایت اور کامیابی کے راستے پر گامزن کرتا ہے۔ غدیر کے دن امیرالمومنینؑ سے کی گئی بیعت نبی کریمؐ کے ساتھ عہدِ وفا کی تجدید اور حکمِ الٰہی کی اطاعت ہے۔ یہ بیعت صرف زبان یا ہاتھوں کی نہیں، بلکہ دل اور روح کا عہد ہے کہ ہم علیؑ کی ولایت کو قبول کرتے ہیں۔ یہ بیعت دائمی ہے اور ہر زمانے میں اسے تازہ کرنا ضروری ہے۔ شیعیانِ علی کو اپنے دور کے امام یعنی امام زمانہؑ سے ہمیشہ بیعت کرتے رہنا چاہیے اور ان کی اطاعت میں زندگی گزارنی چاہیے۔ زیارتِ غدیریہ ان نکات پر زور دیتی ہے کہ غدیر کا دن دین کی تکمیل اور نعمتِ خداوندی کے اتمام کا دن ہے، اور یہی مفاہیم شیعہ تشخص کی بنیاد ہیں۔
زیارتِ غدیریہ امیرالمومنینؑ کی جانشینی کو ثابت کرنے کے لیے قرآن کی مختلف آیات جیسے آیتِ ولایت اور آیتِ تبلیغ کا حوالہ دیتی ہے۔ اسی طرح، مشہور نبوی روایات جیسے حدیثِ غدیر "مَن کُنتُ مَولاهُ فَعَلِيٌّ مَولاهُ" اور حدیثِ منزلت "أنتَ مِنّي بِمَنزِلَةِ هارونَ مِن موسى" کو بھی بیان کرتی ہے۔
اس زیارت میں امام علیؑ کی کئی عظیم صفات کا تذکرہ ہے، جیسے ان کا علمِ لدنی، بے مثال شجاعت، زہد و تقویٰ، عدالت اور عصمت۔ امامؑ کا علم نہ صرف نبی کریمؐ سے حاصل کردہ تھا بلکہ اللہ کی طرف سے الہامی فیض بھی شامل تھا، جس کی بنا پر وہ غیبی علوم اور الٰہی اسرار سے آگاہ تھے اور ہر سوال کا جواب دے سکتے تھے۔ ان کی شجاعت جنگوں میں نمایاں تھی؛ ہر جنگ میں نبیؐ کے ساتھ شریک رہے اور اسلام کے دفاع میں بے خوفی سے لڑے۔ امام علیؑ زاہد اور متقی تھے، دنیا کی لذتوں سے دور رہتے اور سادہ زندگی گزارتے، حالانکہ ان کے پاس اقتدار بھی تھا اور وسائل بھی۔ وہ ہمیشہ مستضعفین اور محتاجوں کی مدد کرتے تھے۔ خلافت کے دوران بھی انہوں نے عدل و انصاف کے قیام میں کوئی کسر نہ چھوڑی، ہر قسم کی ناانصافی کا مقابلہ کیا اور سب کے ساتھ مساوی سلوک کیا۔
امامؑ معصوم تھے، یعنی گناہ اور غلطی سے پاک تھے اور ہمیشہ راہِ حق پر ثابت قدم رہے۔ ان کی عصمت ہی اسلامِ ناب محمدیؐ کی حفاظت کی ضامن ہے۔
زیارتِ غدیریہ میں امام علیؑ کے عظیم مقام کو ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے: "السلام علیک یا قسیم الجنة والنار" (سلام ہو آپ پر اے جنت و دوزخ کے تقسیم کرنے والے)، "السلام علیک یا میزان الاعمال" (سلام ہو آپ پر اے اعمال کے میزان)، جس سے واضح ہوتا ہے کہ امام علیؑ کا مرتبہ نہایت بلند ہے اور وہ حق و باطل کا پیمانہ ہیں۔
زیارتِ غدیریہ، امامت کو محض ایک سیاسی منصب کے بجائے ایک الٰہی اور باطنی مقام کے طور پر بھی پیش کرتی ہے۔ اس زیارت نامہ میں ائمہ معصومینؑ کو اللہ کے نمائندے، فیضِ الٰہی کے واسطے اور امت کے رہنما قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح، ان کی اطاعت اور ان کے احکام کی پیروی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
زیارتِ غدیریہ امامت اور قرآن کو دینِ اسلام کے دو جدا نہ ہونے والے ستونوں کے طور پر بیان کرتی ہے۔ یہ زیارت شیعیانِ اہل بیتؑ کو دعوت دیتی ہے کہ وہ اس میں غور و فکر کریں، ولایت و امامت کے مفاہیم کو گہرائی سے سمجھیں، اور اہل بیتؑ کی پیروی میں مزید استقامت اختیار کریں۔
آپ کا تبصرہ