مہر خبررساں ایجنسی، ثقافتی ڈیسک: ایران صدیوں سے ادب و حکمت کی سرزمین رہا ہے۔ سعدی، حافظ، فردوسی اور شہریار جیسے شعراء نے اسی سرزمین سے آنکھیں کھولیں اور فارسی ادب کی دنیا میں اپنے فن کا جادو جگایا۔ سعدی شیرازی ان ایرانی شاعروں میں شامل ہیں جنہیں عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ ان کا کلام دنیا بھر میں مقبول ہے اور مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
ابو محمد مصلحالدین بن عبداللہ شیرازی، جو اپنے تخلص سعدی سے معروف ہیں، ایران کی ادبی تاریخ کے نمایاں ترین شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ تقریباً 1200ء میں شیراز میں پیدا ہوئے اور 1292ء کے قریب اسی شہر میں وفات پاگئے۔
سخن کا استاد
سعدی کو فارسی ادب میں استادِ سخن کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے اشعار صرف ادبی حسن ہی نہیں رکھتے بلکہ سماجی و اخلاقی بصیرت سے بھی بھرپور ہوتے ہیں۔ ان کی تحریریں گہری فکری معنویت کی حامل ہیں اور مغربی ادبی حلقوں میں بھی ان کے اقوال نقل کیے گئے ہیں۔
زندگی، تعلیم و سفرنامہ
سعدی نے بچپن ہی میں اپنے والد کو کھو دیا تھا۔ ان کے ماموں نے ان کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھایا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہیں بغداد کے مشہور نظامیہ مدرسہ بھیجا گیا، جہاں انہوں نے اسلامی علوم حاصل کیے۔
منگول حملوں کے باعث ایران میں پیدا ہونے والی افراتفری کے نتیجے میں سعدی نے مختلف خطوں کا سفر کیا، جن میں اناطولیہ، شام، مصر، عراق، ہندوستان اور وسطی ایشیا شامل ہیں۔ ان کے سفرنامے ان کی تخلیقات میں جھلکتے ہیں۔ وہ مارکو پولو کی طرح کے سیّاح شاعر تھے جنہوں نے دنیا کو قریب سے دیکھا اور محسوس کیا۔ زندگی کے آخری ایّام انہوں نے اپنے آبائی شہر شیراز میں گزارے، جہاں وہ وفات پا گئے اور ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔
سعدی کا پیغام آج بھی انسانیت، اخلاق، اور حکمت کی روشنی بکھیر رہا ہے۔ ان کا شمار نہ صرف فارسی ادب بلکہ عالمی ادب کے درخشاں ستاروں میں ہوتا ہے۔
سعدی شیرازی کی شہرت ان کی دو شاہکار تصانیف بوستان اور گلستان کی بدولت ہے۔ بوستان مکمل طور پر منظوم ہے اور مثنوی کی بحر میں لکھی گئی ہے۔ اس میں ایسے قصے شامل ہیں جو مسلمانوں کے لیے مطلوبہ اخلاقی اقدار جیسے عدل، سخاوت، حیا اور قناعت کو بہترین انداز میں بیان کرتے ہیں۔
دوسری جانب گلستان نثری مجموعہ ہے، جس میں حکایات اور ذاتی تجربات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں جابجا چھوٹے اشعار، نصیحتیں، لطیفے اور دانائی سے بھرپور جملے شامل کیے گئے ہیں جو اس کی دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں۔
سعدی کی شاعری میں حسِ مزاح نمایاں مقام رکھتی ہے۔ ان کے خیالات اور زاویہ نگاہ میں خوش مزاجی جھلکتی ہے۔ ان کی تحریروں میں مسرت، شگفتگی اور فکری لطافت کی جھلک نظر آتی ہے۔ سعدی سنجیدہ موضوعات کو بھی اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ قاری بوریت کا شکار نہیں ہوتا۔ یہی انداز ان کے کلام کو زیادہ مؤثر، دلنشین اور دیرپا بناتا ہے۔
سعدیہ: سعدی کا مقبرہ
سعدی شیرازی کا مزار شیراز کے جنوبی علاقے میں واقع ہے، جسے سعدیہ کہا جاتا ہے۔ یہ ایران کے اہم ترین سیاحتی اور ثقافتی مقامات میں سے ایک ہے۔ ابتدائی طور پر یہ مزار تیرہویں صدی میں تعمیر ہوا، لیکن سترہویں صدی میں تباہی کے بعد یہ طویل عرصے تک ویراں رہا۔ موجودہ عمارت 1950ء کی دہائی میں تعمیر کی گئی جس میں فارسی فن تعمیر کے مختلف عناصر کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ مقام ایران کے قومی ورثے میں بھی شامل ہے۔
ہر سال 20 اپریل کو دنیا بھر سے شعرا، ادبا اور محققین سعدی کی یاد میں سعدیہ پر جمع ہوتے ہیں، تاکہ اس عظیم فارسی شاعر کو خراج عقیدت پیش کیا جاسکے۔ سعدی آج بھی ادب، اخلاق اور انسان دوستی کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔
ہم سعدی کو کیوں چاہتے ہیں اور ان کی نصیحتوں کو کیوں سنتے ہیں؟
سعدی شیرازی کے نصیحت آمیز کلام کی شہرت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سعدی کی شاعری کی تازگی، الفاظ کی لطافت اور ان کی کہانیوں میں چھپی دوراندیشی و حکمت اتنی بلند و بالا ہے کہ ہر شخص ان کے معتدل، متوازن اور دل نشین انداز بیان سے مسحور ہوجاتا ہے۔
سعدی کی شاعری ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمدردی اور انسانیت ہی انسانی وجود کی اصل روح ہے۔ ان کی تعلیمات ایک ایسے متوازن طرز زندگی کی نشاندہی کرتی ہیں، جو معاشرتی تنازعات کو جڑ سے ختم کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔
سعدی کے کلام میں نہ صرف فکری بلندی ہے، بلکہ وہ عملی زندگی میں بھی تنازعات سے گریز اور نرمی و برداشت پر مبنی رویے کو فروغ دیتے ہیں۔ وہ پرامن بقائے باہمی اور تہذیب یافتہ معاشرتی برتاؤ کے داعی ہیں۔ وہ اقدار جن کی موجودہ انسانیت کو پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ سعدی نے ان اقدار کو عام کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔
ان کی شہرہ آفاق نظم بنی آدم اس بات کی گواہی ہے کہ وہ انسانیت کو ایک وحدت کے دھاگے میں باندھنا چاہتے تھے۔ 13ویں صدی میں لکھی گئی یہ نظم آج بھی عالمی سطح پر اتحاد و ہمدردی کی علامت سمجھی جاتی ہے:
بنی آدم اعضای یک پیکرند
کہ در آفرینش ز یک گوھرند
چو عضوی بہ درد آورد روزگار
دگر عضوھا را نماند قرار
تو کز محنت دیگران بی غمی
نشاید کہ نامت نھند آدمی
ترجمہ: بنی آدم ایک جسم کے اعضا کی مانند ہیں، جو تخلیق میں ایک ہی جوہر سے پیدا ہوئے ہیں۔
جب کسی وقت کوئی عضو درد سے تڑپ جائے تو دوسرے اعضا بھی بے قراری اور بے چینی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اگر تم دوسروں کی تکلیف سے بے خبر رہو، تو پھر تم انسان کہلانے کے مستحق نہیں۔
یہ نظم آج کی دنیا کے مسائل کو سمجھنے اور ان کا حل ڈھونڈنے میں بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ انسانوں کے درمیان مشترکہ درد و احساس کو اجاگر کرنا ہی سعدی کا فن ہے۔
سعدی شیرازی کے اس کلام کو اقوام متحدہ میں نصب کرنے کے حوالے سے سابق ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف کے مطابق اقوام متحدہ میں اپنی تعییناتی کے دوران 2004 میں مجھے معلوم ہوا کہ اصفہان کے مشہور ترین قالین فروش جناب محمد سرافیان نے پانچ میٹر لمبا اور پانچ میٹر چوڑا ایک نفیس قالین تیار کیا ہے، جس کے وسط میں سعدی کا ایک شعر سنہری دھاگے سے لکھا گیا ہے۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر اقوام متحدہ اس قالین کو کسی موزوں مقام پر آویزاں کرے، تو وہ اسے بطور تحفہ دینے کو تیار ہیں۔ اس طرح یہ کلام اقوام متحدہ میں مخصوص دیوار کی زینت بنا۔
یہ واقعہ سعدی کے عالمی اثر و رسوخ کی روشن مثال ہے کہ ان کا پیغام آج بھی پوری دنیا کے لیے انسانیت، امن اور وحدت کا استعارہ ہے۔
آپ کا تبصرہ