19 اپریل، 2025، 2:48 PM

معروف عراقی مبصر کی مہر نیوز کے لئے خصوصی تحریر:

روم مذاکرات؛ امریکی انتشار کے مقابلے میں ایران کی فیصلہ کن ڈپلومیسی

روم مذاکرات؛ امریکی انتشار کے مقابلے میں ایران کی فیصلہ کن ڈپلومیسی

سب کی نظریں اٹلی کے دارالحکومت روم پر ہیں، جہاں سلطنت عمان کی ثالثی میں ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: عراقی تجزیہ کار  "نجاح محمد علی" نے "روم مذاکرات؛ "امریکی داخلی  انتشار کے مقابلے میں ایران فیصلہ کن ڈپلومیسی" کے عنوان سے ایک خصوصی نوٹ مہر نیوز کے انٹرنیشنل گروپ کو بھیجا، جو حسب ذیل ہے: 

سب کی نظریں اٹلی کے دارالحکومت روم پر ہیں۔ جہاں سلطنت عمان کی ثالثی میں ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ 

بین الاقوامی منظر نامے کی پیچیدگیوں کے باوجود ایران نہایت مربوط سفارتی نقطہ نظر کے ساتھ ایک ممتاز فریق کے طور پر ابھرا ہے، جسے ملکی اتحاد اور وسیع غیر ملکی سرگرمیوں کی حمایت حاصل ہے، جب کہ اس کے برعکس، امریکی حکومت کو اندرونی انتشار کا سامنا ہے جو اس کی ٹھوس موقف اختیار کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔

روم مذاکرات سے ثابت ہوا کہ ایران کی فعال سفارت کاری کس طرح عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نمونہ فراہم کر سکتی ہے۔

 ایران ان مذاکرات میں خود اعتمادی کے ساتھ شامل ہوا ہے جو اس کی دانشمندانہ قیادت اور داخلی ہم آہنگی سے پیدا ہوئی ہے۔ 

اسلامی جمہوریہ کو ایک کمزور نظام کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرنے والے بیانیے کے برعکس، ان مذاکرات میں شرکت کا فیصلہ ادارہ جاتی اتفاق رائے سے کیا گیا جو مشاورتی طریقہ کار کی عکاسی کرتا ہے کہ جہاں اسلامی نظام کے اتحاد کو ایک اسٹریٹجک ترجیح حاصل  ہے۔

 یہ ہم آہنگی ایرانی مذاکراتی ٹیم کی کارکردگی میں بھی واضح طور پر نظر آتی ہے، یہ اتحاد محض گفت و شنید کا ذریعہ نہیں ہے، بلکہ ایک واضح وژن کا اظہار کرتا ہے جو مذاکرات کے نتائج سے قطع نظر قومی مفادات کے تحفظ پر مرکوز ہے۔

اس کے برعکس امریکی حکومت داخلی انتشار سے دوچار ہے جس سے اس کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے اندر، دو مخالف نظریات چل رہے ہیں: ایک نائب صدر وینس کی قیادت میں، جو بات چیت کے ساتھ سفارتی نقطہ نظر کو ترجیح دیتے ہیں، اور دوسرے کی حمایت قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور سکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو، جو دباؤ اور دھمکیوں پر مبنی سخت نقطہ نظر کو ترجیح دیتے ہیں۔ 

یہ اندرونی تنازعہ امریکی حکمت عملی پر اثرانداز ہو رہا ہے اور مذاکرات کے دوران عملی حل کے لیے واشنگٹن کے عزم کا اندازہ لگانا مشکل بنا دیتا ہے۔ لیکن جو چیز ایران کی پوزیشن کو ممتاز کرتی ہے وہ نہ صرف اس کی اندرونی ہم آہنگی ہے بلکہ اس کی واضح اور متاثر کن سفارتی سرگرمی بھی ہے جو جوہری مسئلے سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ ایران اپنی علاقائی اور بین الاقوامی موجودگی کو مضبوط بنانے کے مقصد سے کثیر جہتی سفارت کاری پر عمل پیرا ہے۔ 

ایرانی حکام اقتصادی اور سیاسی تعلقات استوار کرنے کے لیے روس اور چین جیسے ممالک کے ساتھ ساتھ ترکی اور قطر جیسے علاقائی طور پر سرگرم ممالک کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ گہری ملاقاتیں کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایرانی وزیر خارجہ کے ایشیائی اور یورپی دارالحکومتوں کے متواتر دوروں کا مقصد توانائی اور تجارت کے شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانا ہے جس سے ایران کی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

 نیز، شنگھائی تعاون تنظیم جیسے علاقائی فورمز میں ایران کی فعال شرکت یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایران تنہا نہیں ہے، بلکہ بین الاقوامی نظام میں ایک فعال کھلاڑی ہے۔ 

یہ سفارتی سرگرمی ایران کو اسٹریٹجک لچک بخشتی ہے، کیونکہ یہ اسے اپنے سیاسی اور اقتصادی اختیارات کو متنوع بنانے اور امریکی دباؤ کے اثرات کو کم کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

 مذاکرات کے فریم ورک کے اندر، یہ واضح ہے کہ ایران نے توقعات کے انتظام میں ایک حقیقت پسندانہ انداز اپنایا ہے۔ 

رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے بیانات میں حد سے زیادہ رجائیت یا مایوسی سے گریز کرتے ہوئے مذاکرات کو روزمرہ کی سفارتی سرگرمیوں کا حصہ قرار دینے پر زور دیا گیا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، ایران متعلقہ خبروں کے بہاؤ کو کنٹرول کر کے مذاکرات کے ارد گرد میڈیا کی تشہیر کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ انہیں ایک غیر معمولی واقعہ بننے سے روکا جا سکے۔

 خاص طور پر ایسے حالات میں جہاں میڈیا مہم مذاکرات کے مقاصد کو مسخ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مذاکرات بذات خود ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں وقت اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایران سمجھتا ہے کہ فوری پیش رفت حاصل کرنا خاص طور پر مسلسل کشیدگی اور بیرونی دباؤ کے ساتھ، نہایت غیر حقیقی ہے،  لہٰذا یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ امریکہ دھمکیوں اور پابندیوں کی زبان ترک کرے اور جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے ایران کے حق کو جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے فریم ورک کے اندر تسلیم کرے۔

 اس کے ساتھ ہی، ایران افزودگی کی سطحوں کے بارے میں بات چیت میں مشغول ہونے کے بجائے اپنے جوہری سائیکل کو ایک اسٹریٹجک ترجیح کے طور پر محفوظ اور برقرار رکھنے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔

مذاکراتی عمل کو دو اہداف ہر موکوز ہونا چاہیے: ایرانی عوام کے خلاف واشنگٹن کی طرف سے عائد غیر قانونی پابندیوں کا مکمل خاتمہ، اور تہران کا اپنے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت پر اعتماد، لیکن ان اہداف کو رکاوٹوں کا سامنا ہے، جس میں صیہونی حکومت کا اثر و رسوخ بھی شامل ہے جو کسی بھی پیش رفت کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

امریکی ویب سائٹ Axios کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹس اس چیلنج کو نمایاں کرتی ہیں، جو Vance کی قیادت میں سفارتی دھارے اور Rubio اور Waltz کی نمائندگی کرنے والے سخت گیر دھارے کے درمیان تناؤ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

بالآخر، ایرانی سفارت کاری چیلنجوں کے مقابلہ میں سرگرمی اور لچک کے نمونے کے طور پر نمایاں ہے۔ داخلی ہم آہنگی، وسیع غیر ملکی سرگرمی اور مذاکرات کے حقیقت پسندانہ انتظام کے ذریعے، ایران اپنی صلاحیتوں پر اعتماد رکھنے والے ملک کی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس کے برعکس، امریکہ کو داخلی چیلنجوں کا سامنا ہے جو اس کی تاثیر کو محدود کر سکتے ہیں۔ 

روم مذاکرات کی کامیابی کا انحصار فریقین کی دباؤ اور تقسیم پر قابو پانے اور ایسے حل کے عزم پر منحصر ہے، یہ مذاکرات محض دو ممالک کے درمیان ہونے والی بات چیت نہیں ہوں گے بلکہ یہ ایک پیچیدہ دنیا میں سفارت کاری کی صلاحیت کا امتحان بھی ہوگا۔

News ID 1932005

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha