مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے نیویارک میں "سینئر امریکی دانشوروں" کے ایک گروپ سے ملاقات میں کہا کہ میرے لیے یہ قابل قبول نہیں کہ ایران جیسے آزاد ملک میں کچھ ہو جائے تو ایک شخص پوری دنیا کی رائے عامہ کو ہمارے خلاف متحرک کرتا ہے لیکن یہ کیسا انصاف ہے کہ وہ (مغربی ممالک) فلسطین میں روزانہ سینکڑوں معصوم عورتوں اور بچوں کے قتل پر خاموش ہیں اور مجرموں کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔ کیا ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ مغربی ممالک کا انسانی حقوق کا دعوی سچا ہے؟ یا یہ کہ وہ اپنے استحصالی مقاصد اور مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے اس قدر دوغلے پن کا شکار ہیں!
انہوں نے تہران میں شہید اسماعیل ہنیہ کے قتل پر صیہونی رجیم کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے کشیدگی اور تصادم کو بڑھنے سے روکنے کے لیے صبر کا مظاہرہ کیا تاہم وہ صیہونی حکومت کی جارحیت کا بھرپور جواب دے گا۔
ایرانی صدر نے کہا کہ ہم JCPOA کے پابند تھے، لیکن امریکیوں اور مغربیوں نے IAEA کے معائنہ کاروں کے ساتھ ایران کی جوہری تنصیبات کو سبوتاژ کرنے کے لیے جاسوس بھیجے۔ یہ امریکیوں کا وطیرہ ہے کہ وہ کسی بھی معاہدے کے بعد دوسرے فریق پر دباو بڑھاتے ہیں تاکہ اسے کمزور کرکے اپنے مطالبات مسلط کریں۔
انہوں نے یہ سوال کو اٹھاتے ہوئے کہ ایران نے کس دہشت گرد کو تربیت دی ہے، اس نے کون سی دہشت گردانہ کارروائی کی ہے یا اس نے کس دہشت گرد گروہ کو بنایا ہے اور اس کی حمایت کی ہے، کہا کہ جب کہ امریکی اور صیہونی روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کرتے ہیں۔ اور داعش جیسے گروہوں کی تشکیل اور حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ داعش کا مقابلہ کس نے کیا اور اسے کس نے بنایا؟ داعش کے خلاف جنگ کا ہیرو کون تھا؟ اور کس نے اسے بے دردی سے شہید کیا؟
پزشکیان نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ فلسطینی عوام کی حمایت ظالم کے مقابلے میں مظلوم کے دفاع کا دینی فریضہ ہے، واضح کیا کہ فلسطینی عوام اپنے مستقبل کے بارے میں جو کچھ چاہتے ہیں اور قبول کرتے ہیں، ہم بھی اسے قبول کرتے ہیں۔
اگر آپ جمہوریت کا دفاع کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اس سرزمین کے باشندوں کو آزادی سے اپنی تقدیر کا انتخاب کرنے دیں، آپ ظالم اور مظلوم کی جگہ کیوں بدلنا چاہتے ہیں، صہیونیوں نے فلسطینیوں کو بے گھر کیا، کس نے لاکھوں لوگوں کو انتہائی وحشیانہ طریقے سے قتل اور شہید کیا؟ اگر آپ لوگوں پر اس حد تک ظلم کیا جائے تو آپ کیا کریں گے؟
انہوں نے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ نیٹو کے جنگی اہداف پھیلانے کے امریکی منصوبے تحت ہوئی ہے اور اب وہ مختلف طریقوں سے اپنے مفادات کی جنگ جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن کسی بھی صورت میں اسلامی جمہوریہ ایران کسی جنگ کو تسلیم نہیں کرتا اور بنیادی طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ ہم روس یا کسی دوسرے ملک کی مدد نہیں کرتے اور نہ ہی لڑنے کے لیے ہتھیار دیتے ہیں۔
صدر پزشکیان نے روس اور چین کے ساتھ ایران کے تعلقات کی مضبوطی کے بارے میں کہا کہ جب امریکی ہمارے ساتھ نامناسب رویہ اپنائیں تو پھر انہیں ہم سے مثبت تعامل کی امید نہیں رکھنی چاہئے، ہم نے اپنے ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے، ان ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دی ہے جو باہمی احترام اور مفادات کی بنیاد پر ہمارے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ اگر مغربی ممالک کے ساتھ بات چیت ممکن ہو تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے لیکن ہم ان دوستوں کو نہیں بھولیں گے جنہوں نے مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا۔
انہوں نے یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ ایران، امریکیوں اور یورپیوں کے درمیان عدم اعتماد کا ذمہ دار کون ہے؟ مزید کہا کہ ایران پر حملے میں صدام کا ساتھ کس نے دیا؟ کیا یہ قبول کیا جا سکتا ہے کہ ایران کے عوام کو نشانہ بنانے والے کیمیائی بم اور میزائل امریکہ کی اجازت کے بغیر بعثی حکومت کو دئے گئے؟ ہم بداعتمادی کو دور کرنے کے لیے بات چیت کا خیرمقدم کرتے ہیں، لیکن ہم طاقت اور دھونس دھمکی کو ہرگز قبول نہیں کریں گے اور جو بھی ضروری ہوگا وہ کریں گے تاکہ کوئی ہماری سرزمین پر حملہ کرنے کی جرات نہ کرے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ اگر مغربی فریق ایران کے ساتھ اپنے وعدوں پر قائم رہے اور اعتماد بحال کرے تو ہم دوسرے مسائل پر بات چیت کر سکتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ