مہر خبررساں ایجنسی ، بین الاقوامی ڈیسک؛ ماہ ربیع الاول میں یمن کے شہروں میں سبز رنگ کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ یمنی عوام اس طریقے سے اللہ کی اطاعت اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
یمن میں گیارہ صدیوں سے اس روایت پر عمل کیا جارہا ہے۔ لاکھوں افراد عید میلادالنبی کے جشن میں شرکت کرتے ہیں۔ مختلف شہروں میں میلاد کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔
مرکزی جشن دارالحکومت صنعاء کے السبعین اسکوائر پر منعقد کیا جاتا ہے جو کہ قومی جشن کی حیثیت رکھتا ہے۔ مجموعی طور پر پورے یمن میں عید میلادالنبی کا جشن 30 دنوں تک منایا جاتا ہے۔ شہروں کے علاوہ لوگ اپنے گھروں اور گاڑیوں کو بھی سبز رنگ کرتے ہیں۔
صنعاء میں مرکزی جشن میں انصاراللہ یمن کے سربراہ سید عبدالملک الحوثی خطاب کرتے ہیں۔ یمنی عوام عید میلاد النبی کے موقع پر جشن مناکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت ص کے اسم مبارک سے قوم کو طاقت ملتی ہے۔ قوم کو بحرانوں اور مشکلات سے نجات دینے کا یہی طریقہ ہے۔
یمنی بہترین لوگ ہیں
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یمنی قوم کے بلند مقام و مرتبے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آنحضرت نے فرمایا کہ اہل یمن بہترین لوگ ہیں۔ میں یمانی ہوں اور قیامت کے دن قبیلہ مذحج کے لوگ سب سے زیادہ بہشت میں داخل ہوں گے۔ (مذحج یمنی قبیلے کا نام ہے۔ مالک اشتر اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے)
اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: یمنیوں سے محبت کرنے والا مجھ سے محبت کرتا ہے۔ ان سے دشمنی کرنے والے مجھ سے دشمنی کرتے ہیں۔
آنحضرت ص نے اہل یمن کو نرم دل قرار دیتے ہوئے فرمایا: اہل یمن نرم دل اور مطیع ہیں۔ مدینہ کے انصار دو قبیلوں پر مشتمل تھے؛ اوس اور خزرج جنہوں نے کفار اور مشرکین کے ساتھ جنگوں میں اہم کردار ادا کیا۔ انصار کا ریشہ قبیلہ ازد سے ملتا ہے جو یمنی قبیلہ تھا۔
واقعہ بنی سقیفہ کے بعد بیس افراد نے تشیع کی بنیاد رکھی۔ ان میں سے دس کا تعلق یمن سے تھا۔ یمنی شہر حضرموت میں خلیفہ کی طرف سے حاکم پہنچا تو بعض یمنی قبائل کے سرداروں نے حاکم سے کہا کہ ہم اہل بیت پیغمبر ؑ کی اطاعت کرتے ہیں۔ ان کو خلافت سے کیوں دور رکھا گیا ہے؟
34 یمنی جو کربلا میں شہید ہوئے
جب حضرت امام حسین ؑ نے کربلا جانے کا قصد کیا تو عبداللہ بن عباس نے مشورہ دیا کہ یمن چلے جائیں کیونکہ وہاں شیعہ زیادہ ہیں جو اہل بیت سے محبت کرتے ہیں۔ مورخین کے مطابق شہداء کربلا میں سے 34 کا تعلق یمن سے تھا۔
توابین کے قیام میں یمنیوں کا کردار
واقعہ کربلا کے بعد جب توابین نے قیام کیا۔ سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں بنی امیہ کے خلاف جنگ لڑی گئی۔ توابین کی تحریک کو وجود میں لانے اور بنی امیہ کے خلاف قیام میں یمنیوں کا بڑا کردار تھا۔
اویس قرنی تشیع کی نمایاں ترین شخصیت
اویس بن عامر مرادی قرنی اپنے راسخ ایمان، ولایت حضرت علی علیہ السلام اور آپ کی رکاب میں شہادت کی وجہ سے عالم اسلام اور تشیع کی برجستہ ترین شخصیت ہیں۔ اویس قرنی نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں ایمان لایا۔ اپنی ماں کی ضعیف العمری اور بیماری کی وجہ سے آنحضرت کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکے۔ ان کے پرزور اصرار پر ماں نے اس شرط پر اویس کو مدینہ جاکر رسول اکرم ص کی زیارت کی اجازت دی کہ ایک دن ہی مدینہ میں قیام کرے۔ اس دن رسول اکرم ص مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تھے۔ اویس نے ایک دن انتظار کیا اور اگلے دن ماں سے کیے وعدے کے مطابق واپس آئے۔ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ واپس آئے تو فرمایا: کون آیا تھا؟ اس کے وجود کی خوشبو سے فضا معطر ہے۔
آنحضرت ص نے اویس کو تابعین میں سے برترین قرار دیا تھا۔ تابعین وہ مسلمان ہیں جو رسول اکرم ص کے اصحاب کے ساتھ رہے ہیں۔ اسی طرح فرمایا: اویس قیامت کے دن لوگوں کے بڑے گروہ کی شفاعت کریں گے۔ امت اسلام میں سے میرا دوست اویس قرنی ہے۔
اویس حضرت علیؑ کے زمانہ خلافت تک یمن میں رہے۔ جب حضرت علیؑ پیمان شکنوں کے ساتھ مقابلہ کرنے بصرہ گئے تو اویس بھی بصرہ پہنچے اور امام علیؑ کے ہمراہ جنگ جمل میں شرکت کی۔ اویس نے جنگ صفین میں عمار یاسر کے ہمراہ حضرت علیؑ کا دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
اویس قرنی کا مزار عمار یاسر کے ہمراہ شام کے شہر رقہ میں ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کے بعد امام خمینی کے حکم سے ضریح بنایا گیا اور باقاعدہ زیارت گاہ کی شکل دی گئی۔ افسوس کے ساتھ تکفیری وہابیوں نے ان کے پاک مزار کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کردیا۔
مالک اشتر اور کمیل بن زیاد یمنی کی حضرت علیؑ سے عقیدت
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علیؑ کو اسلام کی تبلیغ کے لئے یمن بھیجا تو مالک اشتر کے قبیلہ نخعی نے اسلام قبول کیا۔ یہاں سے مالک اشتر کی حضرت علیؑ سے ملاقات ہوئی۔ مالک اشتر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد مدینہ آئے اور تابعین میں سے قرار پائے۔
کمیل بن زیاد نخعی کا تعلق بھی یمن سے تھا۔ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا زمانہ درک کیا تھا۔ آنحضرت کی رحلت کے بعد کمیل حضرت علیؑ اور حضرت امام حسنؑ کے باوفا اصحاب میں شمار ہوتے تھے۔ کمیل بن زیاد کو حضرت امیر المومنینؑ سے محبت کے جرم میں حجاج بن یوسف نے شہید کردیا۔ شہادت کے وقت کمیل کی عمر سو سال تھی۔
ان کے علاوہ حجر بن عدی، عمرو بن حمق، ھانی بن عروہ اور مقداد بن اسود کندی کا تعلق بھی یمن سے تھا۔ حجر بن عدی نے تمام جنگوں میں امیر المومنینؑ کے لشکر میں اہم کردار ادا کیا۔ عمرو بن حمق کے بہشتی ہونے کی گواہی رسول اکرم ص نے دی تھی۔ ہانی نے زمان رسول اکرم ص کو درک کیا تھا اور حضرت علیؑ کے خاص اصحاب میں شمار ہوتے تھے۔ وہ حجر بن عدی کے قیام کے اراکین میں سے تھے۔ ہانی کو حضرت مسلم بن عقیل کی حمایت کے جرم میں ابن زیاد نے شہید کردیا تھا۔ مقداد بن اسود کندی کا حضرموت یمن کے قبیلہ کندہ سے تھا۔ ایک روایت کے مطابق مقداد ان بیس افراد میں سے ہے جو رجعت کریں گے اور حضرت امام زمان علیہ السلام کے خاص اصحاب میں شمار ہوں گے۔
لاکھوں یمنیوں کی غزہ کی حمایت پر تاکید
اس سال جشن عید میلاد النبی کے موقع پر یمن اور لبیک یا رسول اللہ کے علاوہ فلسطین کے پرچم بھی دکھائی دیے۔ یمنی لوگ امت مسلمہ پر غزہ کی حمایت اور امریکی اور صہیونی مصنوعات کے بائیکاٹ پر زور دے رہے تھے۔ یمن کے کئی صوبوں میں فلسطین اور غزہ کی حمایت میں تسلسل کے ساتھ مظاہرے ہورہے ہیں جن میں صعدہ، ریمہ، مآرب، عمران، اب، تعز، حجہ، ذمار اور الجوف شامل ہیں۔
عید میلاد النبی کے موقع پر انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا کہ یمنی عوام سیاسی اہداف کے لئے نہیں بلکہ چونکہ ایمان کے ساتھ غزہ کی حمایت کے لئے سڑکوں پر نکلے ہیں۔
یمنی عوام کے ساتھ مسلح افواج بھی اس عہد کی پابند ہیں کہ جب تک صہیونی حکومت غزہ پر حملے بند نہیں کرے گی، بحیرہ احمر میں صہیونی کشتیوں پر حملے جاری رہیں گے۔
یمنی مسلح افواج نے اتوار کے روز تل ابیب پر کئی ہائپر سونک میزائل داغے ہیں۔ یمنی حملوں کے بعد دو ملین صہیونی محفوظ پناہ گاہوں میں چلے گئے ہیں۔ صہیونی دفاعی نظام یمنی میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔
عید میلاد النبی کے موقع پر لاکھوں یمنیوں نے جشن میں شرکت کرکے جارح قوتوں کو پیغام دیا ہے کہ یمنی ان کے مقابلے میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئے ہیں۔ اللہ اور رسول پر ایمان اور توکل کرکے وہ استقامت کررہے ہیں اور فلسطین اور غزہ کی حمایت جاری رکھیں گے۔
آپ کا تبصرہ