15 جولائی، 2023، 1:15 PM

شیعہ افغانستان کا اہم حصہ ہیں اور ان کو حقوق حاصل ہوں گے، طالبان

شیعہ افغانستان کا اہم حصہ ہیں اور ان کو حقوق حاصل ہوں گے، طالبان

طالبان کے قائم مقام وزیر اعظم نے شیعوں کے حقوق شریعت کی روشنی میں فراہم کرنے پر زور دیا اور طالبان حکومت کے ساتھ شیعوں کے قریبی تعاون پر بھی زور دیا۔ 

مہر خبررساں ایجنسی نے انڈیپینڈنٹ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ طالبان کے قائم مقام وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر نے افغانستان میں ماہ محرم الحرام مہینہ کی آمد پر طالبان حکومت کے ساتھ شیعوں کے "قریبی تعاون" پر زور دیا۔ 

طالبان وزراء کے دفتر نے قائم مقام وزیر اعظم کے حوالے سے ایک بیان شائع کیا ہے اور اطلاع دی ہے کہ عبدالکبیر نے افغانستان کے متعدد صوبوں کے متعدد شیعہ علما اور بااثر افراد سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ شیعہ افغانستان کا ایک اہم حصہ ہیں اور ان کی شریعت کی روشنی میں دیئے گئے حقوق کے مطابق حمایت کی جائے گی۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دیگر افغانوں کی طرح شیعہ بھی ملک کا ایک اہم حصہ ہیں اور شرعی قانون کی روشنی میں سب کو مساوی اور منصفانہ حقوق دیے جاتے ہیں۔

 طالبان کابینہ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس ملاقات میں طالبان انتظامیہ کے ساتھ "مزید تعاون کے طریقوں" پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

مولوی قندوزی نے مزید کہا کہ شیعہ افغان قوم کا حصہ ہیں اور کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ ان کی بے عزتی کرے، اور ہم شیعوں سے بھی کہتے ہیں کہ وہ اسلامی نظام کے ساتھ کھڑے ہوں۔

 اس سے پہلے طالبان کی عبوری حکومت کے عہدیداروں نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے افغانستان میں شیعوں کے حقوق کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا ہے۔ طالبان کے ایک عہدیدار حافظ ذاکر اللہ نے اس حوالے سے اعلان کیا کہ یہ کمیشن "شیعہ حقوق کا جائزہ کمیشن" کے عنوان سے طالبان رہنماؤں کے حکم سے تشکیل دیا گیا ہے اور افغان شیعوں کی سیاسی حیثیت اور شہریت کے حقوق کا فیصلہ کرتا ہے۔

مولوی قندوزی جو کہ مذکورہ کمیشن کے سربراہ ہیں، نے مزید کہا کہ جلد ہی اس ادارے کے ڈھانچے اور سرگرمیوں کا باضابطہ اعلان کیا جائے گا۔ 

ذاکر اللہ نے مزید کہا کہ ایک ماہ پہلے سے اب تک، ہم نے افغان شیعہ متاثرین اور نمائندوں کے ساتھ بات چیت شروع کی اور کوشش کی کہ وہ سب امارت اسلامیہ پر بیعت کریں اور پھر حکومت میں اپنی پوزیشن کا فیصلہ کریں۔

واضح رہے کہ یہ سب کچھ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے کہ جب طالبان نے ایک ایسی حکومت بنائی ہے جس میں اس کے تمام ارکان ایک خاص گروپ کے رکن ہیں اور اکثر پشتون ہیں جب کہ دیگر افغان نسلی گروہوں، خاص طور پر ہزارہ شیعوں کے لیے کوئی حصہ مختص نہیں کیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ طالبان کی عبوری حکومت کی تشکیل نے بہت سے ردعمل کو جنم دیا ہے اور اب تک کسی ملک نے اس حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے، جب کہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ہے اور اس میں تمام نسلی گروہوں کے نمائندوں کا کردار ہے۔

News ID 1917819

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha