مہر خبررساں ایجنسی، گروہ دین و فکر:21 رمضان المبارک کو امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام شہید ہوگئے۔ آپ کی حکومت چار سال، نو مہینے اور تین دنوں پر مشتمل تھی۔ آپ نے اس وسیع و عریض اسلامی مملکت کا احسن طریقے سے نظم و نسق سنبھالا جو مشرق میں دریائے سندھ، مغرب میں افریقی صحرا، شمال میں قفقاز اور جنوب میں خلیج عدن تک پھیلی ہوئی تھی۔ ابوسفیان کے بیٹے معاویہ کی بغاوت کی وجہ سے شام آپ کے دائرہ اختیار سے باہر تھا۔ اس کے علاوہ پوری مملکت میں آپ کے فرمان کے مطابق حاکم اور اعلی حکومتی عہدیدار تعیینات ہوتے تھے۔ آپ کی زیرنگرانی ملک میں دولت کی تقسیم ہوتی تھی۔ آپ اپنی تدبیر و فراست سے ملک کو درپیش مشکلات حل کرتے تھے۔
آپ کی سیاسی سیرت ہمارے لئے بہترین نمونہ عمل ہے جس پر کم توجہ کی گئی ہے۔ آپ سیاسی اصولوں اور اعلی انسانی اقدار کو اہمیت دیتے تھے۔ سیاست اور حکومتی امور میں دھوکہ دہی اور فریب کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ معاویہ کی مکر وفریب پر مبنی سیاست کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ ہوشیار نہیں ہے۔ اس کا شیوہ اور روش عہد شکنی اور گناہ گاری ہے۔ اگر عہد شکنی بری چیز نہ ہوتی تو مجھ سے زیادہ کوئی چالاک نہ ہوتا۔ عہد شکنی انسان کو گناہ بھی مجبور اور دل کو تاریک کرتی ہے۔
حضرت امام علی علیہ السلام کی سیرت پاک پر گفتگو کرنے کے لئے تاریخ و سیرت اہل بیت ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے رکن حجت الاسلام ید اللہ حاجی زادہ کے ساتھ ہم نے نشست رکھی۔ آپ علیہ السلام کی سیرت طیبہ پر گفتگو کرتے ہوئے حجت الاسلام حاجی زادہ نے کہا کہ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد اسلام کی دوسری عظیم شخصیت ہیں۔ آپ نے قرآن و سنت کے مطابق عوام اور رعایا کے حقوق کا مکمل خیال رکھا۔ آپ کی پانچ سال کی مختصر حکومت حقوق انسانی اور آزادی بیان کے حوالے سے بہترین راہ نما اصولوں پر مشتمل ہے۔
حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے عوام سے فرمایا کہ جس طرح میرے تم پر کچھ حقوق ہیں اسی طرح تمہارے مجھ پر بھی کچھ حقوق ہیں۔ حجت الاسلام حاجی زادہ نے کہا کہ آپ علیہ السلام کے فرمان کے مطابق عوام کا حاکم پر حق یہ ہے کہ ہمیشہ ان کی خیر خواہی کریں، بیت المال کی تقسیم میں عدالت سے کام لیں، عوام کو سہولتیں فراہم کریں اور تعلیم و تربیت کے وسائل آمادہ کریں۔
امام علی علیہ السلام کے فرمان کی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگوں کے ساتھ خیر خواہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی دنیوی اور اخروی زندگی کے لئے مفید کاموں کو بجالائیں۔ رعایا کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ جو کچھ ان کی مصلحت میں ہے اس کو انجام دیں۔ حاکم کو چاہئے کہ بیت المال کو تمام لوگوں میں عادلانہ تقسیم کرے۔ گذشتہ زمانے میں اپنے من پسند افراد کو بیت المال میں سے نوازا جاتا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام بیت المال کی تقسیم میں امتیازی سلوک کے قائل نہیں تھے۔
عوام کو تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرنا حاکم کی ذمہ داری ہے۔ مسلمان معاشرے سے جہالت اور نادانی ختم ہونا چاہئے۔ تعلیم و تربیت کے سلسلے میں لوازمات اور وسائل فراہم کرنا حاکم پر فرض ہے۔ لوگوں کو صرف تعلیم فراہم کرنا کافی نہیں ہے بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ضروری ہے۔
حجت الاسلام حاجی زادہ نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جس طرح امام علی علیہ السلام نے حاکم پر عوام کے حقوق کی نشاندہی کی ہے اسی طرح آپ علیہ السلام نے لوگوں پر حاکم کے حقوق کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ عوام پر حاکم کا حق یہ ہے کہ اپنی بیعت اور وعدے کی وفا کریں، حاکم کے سامنے اور پیٹ پیچھے اس کا خیر خواہ بنیں، اعلی اہداف اور مقاصد کی تکمیل میں حاکم کی مدد کریں اور جب کوئی حکم جاری کیا جائے تو اس پر عمل کریں۔ جب دشمن مملکت کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں پر یلغار کریں تو حاکم کی مدد کرتے ہوئے ملک کا دفاع کریں۔ اگر حاکم کو تنہا چھوڑدیا جائے تو دشمن مملکت پر قبضہ کرکے قومی وسائل کی لوٹ مار کریں گے۔
حجت الاسلام حاجی زادہ نے امام علی علیہ السلام کے فرمان کی تشریح کرتے ہوئے مزید کہا کہ حکومت چلانے کے لئے عوام کا تعاون ضروری ہے۔ اگر حاکم کسی موقع پر عوام کو کوئی حکم جاری کرے تو عوام پر فرض ہے کہ اس کے حکم کی تعمیل کے لئے میدان عمل میں آجائیں۔
حضرت علی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ علیہ السلام عوام کو اظہار رائے کی مکمل آزادی کے قائل تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ مجھ سے اس طرح گفتگو نہ کرو جس طرح ظالم اور جابر حاکموں سے گفتگو کرتے ہیں۔ آپ علیہ السلام اپنے سامنے آزادی کے ساتھ گفتگو کرنے کی اجازت دیتے تھے۔ مجھے حق بات سننے میں ناگوار محسوس نہیں ہوتی ہے۔ عبداللہ ابن کواء آپ کے سخت مخالف اور خوارج کا سرغنہ تھا لیکن نہایت جرأت کے ساتھ آپ پر اعتراض کرتا تھا اور امام علیہ السلام پورے اطمینان اور سکون کے ساتھ اعتراضات کا جواب دیتے تھے۔ یہ آزادی اظہار رائے و بیان کا بہترین نمونہ ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے تھے کہ میرے سامنے حق بات کرنے سے گریز مت کریں یعنی اگر سیاسی اور اجتماعی امور میں آپ پر کسی کو اشکال یا اعتراض ہو تو اس کے اظہار میں مکمل آزادی دیتے تھے۔
آپ کا تبصرہ