مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے فائننشل ٹائمز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم واضح وژن کے بغیر امریکہ سے مذاکرات نہیں کریں گے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے ویانا مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی نئی حکومت نے گذشتہ چند ہفتوں سے ویانا میں مشترکہ ایٹمی معاہدے کی روشنی میں مذاکرات شروع کئے ہیں۔ مذاکرات میں ہمارے لئے سب سے اہم بات مشترکہ ایٹمی معاہدے کی روشنی میں امریکہ کی یک طرفہ اور ظالمانہ پابندیوں کا خاتمہ ہے۔ ایرانی وفد اور یورپی ممالک کے وفود میں ایک اہم اور نمایاں فرق دکھائی دیتا ہے ایرانی ٹیم ابتدا ہی سے مذاکرات میں منظم پروگرام اور منطقی اور اصولی اہداف کی روشنی میں حاضر ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس عرصے کے دوران ہمیں جن مسائل کا سامنا رہا ہے ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے فریق میں سنجیدہ اقدام کا فقدان ہے۔ بعض اوقات ہمیں یہ شک بھی ہوتا ہے کہ کیا مغربی فریق واقعی کسی معاہدے کی تلاش میں ہیں؟! کیا مغربی فریق واقعی مشترکہ معاہدے اور اقوام متحدہ کی قرارداد 2231 کے تحت ایران پر سے پابندیاں ہٹانے کے خواہاں ہیں یا انہیں صرف ایک ہی تشویش ہے اور وہ تشویش ایران کا پرامن ایٹمی پروگرام ہے اور اس تناظر میں وہ صرف اپنے خدشات کو دور کرنا چاہتے ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا: "یہاں تک کہ ہم نے مذاکرات میں ان سے بارہا کہا ہے کہ اگر آپ ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے بارے میں اپنے خدشات دور کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اقوام متحدہ کی قرارداد اور مشترکہ ایٹمی معاہدے کی روشنی میں پابندیوں کے حوالے سے ایران کے خدشات کو بھی دور کرنا چاہیے۔ اگر ہم ان کے خدشات کو دور کرنے کے لئے آمادہ ہیں تو انھیں بھی ہمارے خدشات کو دور کرنے کے لئے عملی اقدام کرنا چاہیے۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ امریکی ہمیں بہت سے پیغامات بھیج رہے ہیں کہ ہم سے براہ راست بات کریں۔ امریکیوں کے ثالثوں کو ہمارا آخری جواب یہ تھا کہ امریکہ کے ساتھ کوئی بھی بات چیت، رابطہ یا گفت و شنید ہماری حکومت کو بہت مہنگی پڑے گی۔ ہم دیرپا ضمانت کے ساتھ اچھے معاہدے کے لیے واضح اور مضبوط وژن کے بغیر امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے عمل میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
امیرعبداللہیان نے کہا: "ہم نے ثالثوں کے ذریعے امریکیوں سے کہا کہ اگر آپ کے حقیقی ارادے ہیں تو آپ کو کسی بھی بات چیت اور رابطے سے پہلے زمینی سطح پر کچھ عملی اور ٹھوس اقدامات کرنے چاہییں۔" مثال کے طور پر، ہماری روکی ہوئی رقم میں سے کچھ غیر ملکی بینکوں کو جاری کی جانی چاہیے، یا ایران پر عائد پابندیوں میں سے کچھ کو صرف نیک نیتی کے ساتھ امریکی صدر کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ہٹا دیا جانا چاہیے تاکہ ہم یقین کر سکیں، کہ امریکی جو کچھ کر رہے ہیں وہ قابل عمل ہے۔ وہ اس پر عمل درآمد کے لیے سنجیدہ ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا: "یہ مذاکرات کی میز بھی ہے جو ہمارے اگلے فیصلوں کی سمت کا تعین کرتی ہے۔" لیکن مجموعی طور پر ہم پر امید ہیں۔ ہم اچھا معاہدہ چاہتے ہیں ، ہم کسی کے دباؤ میں نہیں آئيں گے۔ انھوں نے کہا کہ ہم کب اچھے معاہدے تک پہنچ سکیں گے اس کا دار و مدار دوسرے فریق پر ہے موجودہ صورتحال کی پوری ذمہ داری امریکہ کے دوش پر عائد ہوتی ہے جس نے مشترکہ ایٹمی معاہدے سے خارج ہوکر عدم اعتماد کی فضا پیدا کی ہے اور امریکہ ہی اپنے عملی اقدامات کے ذریعہ دوبارہ اعتماد کی فضا کو بحال کرسکتا ہے اور اس طرح ہم بہت جلد اچھے معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ