خبررساں ایجنسی نے ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ دنیا بھر میں ٹی بی کا مرض موجودہ دواؤں کو بے اثر بناکر ناقابلِ علاج ہوتا جارہا ہے لیکن حال ہی میں ایک نئے طریقہ علاج سے دواؤں کے خلاف مزاحمت والی ٹی بی کے علاج میں 82 فیصد کامیابی ملی ہے۔ اس بات کا انکشاف لیورپول میں منعقدہ پھیپھڑوں کی صحت کی عالمی کانفرنس میں کیا گیا۔ یہ دوا افریقہ کے 9 ممالک میں آزمائی گئی جس کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اس میں ٹی بی کے ایسے 1,006 مریضوں کو شامل کیا گیا جو سب ٹی بی کی طاقتور ترین دوا رفامپیسن سے بھی ٹھیک نہیں ہورہے تھے۔ ان میں سے 734 مریض مکمل طور پر تندرست ہوگئے اور 87 کیسز میں بہتری کے آثار ہیں جب کہ بقیہ مریضوں میں سے 54 نے دوا نہیں کھائی، 49 نے واپس آکر اپنی کیفیت نہیں بتائی اور 82 مریض ہلاک ہوگئےہیں۔
انٹرنیشنل یونین اگینسٹ ٹیوبرکلوسس کی افریقہ کے لیے سربراہ ویلری شو بیل نے مختلف دواؤں کے مجموعے سے بننے والی اس نئی دوا کو ایک کامیاب نسخہ قرار دیا ہے۔ اسی تنظیم کی ایک اور ماہر ڈاکٹر پاولہ فیوجی وارا کے مطابق اس دوا کو دوسرے کئی مقامات پر آزمایا گیا تو ایسے ہی نتائج برآمد ہوئے ہیں اور اسے اب تک دوا سے ناقابلِ علاج ٹی بی کا سب سے مؤثر طریقہ علاج کہا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس طریقہ علاج میں افریقا کے دس ملکوں میں سخت جان ٹی بی کے شکار سینکڑوں مریضوں کو سات مختلف دواؤں کا مجموعہ استعمال کرایا گیا ۔ 3 دوائیں ابتدائی 4 ماہ تک دی گئیں جب کہ باقی 4 دوائیں اگلے 9 ماہ تک دی گئیں۔ توقع ہے کہ اس سے ٹی بی کے ان مریضوں کے علاج کی راہ ہموار ہوگی جو اپنے علاج سے مایوس ہوچکے ہیں۔ ٹی بی کی اس کیفیت کو ایم ڈی آر ٹی بی کہا جاتا ہے۔ اس کے سب سے زیادہ مریض ہندوستان، روس اور چین میں ہیں۔
آپ کا تبصرہ