مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ کے غضب سے اللہ غبضناک ہوتا ہے فاطمہ کا غضب اللہ کا غضب ہے جس نے فاطمہ کو اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذيت پہنچائی اور جس نے مجھے اذيت پہنچائی اس نے خدا کو اذیت پہنچائی اور خدا کو اذيت پہنچنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جن کا معروف نام فاطمۃ الزھرا ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی حضرت علی علیہ السلام سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام اور دو بیٹیاں حضرت زینب اور حضرت ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد ان کے اختلافات حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے بوجہ خلافت و مسئلہ فدک کے ہوئے ۔ حضرت فاطمہ زہرا(س) نے حضرت ابو بکر کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کی بیعت کی اور مرتے دم تک ابو بکر اور عمر سے کلام تک نہیں کیا اور وصیت کی کہ ابو بکر اور عمر کو ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے، آپ کی شہادت اپنے والد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔ کچھ اعتقادات اور روایات کے مطابق آپ کی شہادت ان زخموں سے ہوئی جو دروازہ گرانے سے آپ کے بدن مبارک پر لگے تھے دروازہ حضرت عمر اور ان کے ساتھیوں نے اس لئے گرایا تھا کہ وہ حضرت علی (ع) کو ابو بکر کی بیعت کے لئے زبردستی لے جانا چاہتے تھے۔
آپ کے مشہور القاب میں زھرا اور سیدۃ النساء العالمین (دنیا و جہاں کی عورتوں کی سردار اور بتول ہیں۔ مشہور کنیت ام الائمہ، ام السبطین اور ام الحسنین ہیں۔ آپ کا مشہور ترین لقب سیدۃ النساء العالمین ایک مشہور حدیث کی وجہ سے پڑا جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو بتایا کہ وہ دنیا اور آخرت میں عورتوں کی سیدہ ( سردار) ہیں۔ اس کے علاوہ خاتونِ جنت، الطاہرہ، الزکیہ، المرضیہ، السیدہ، العذراء وغیرہ بھی القاب کے طور پر ملتے ہیں۔
تواریخ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد کچھ صحابہ نے حضرت علی (ع) سمیت ابو بکر کی بیعت نہیں کی۔ حضرت علی گوشہ نشین ہو گئے اس پر حضرت عمر آگ اور لکڑیاں لے آئے اور کہا کہ گھر سے نکلو ورنہ ہم آگ لگا دیں گے۔ حضرت فاطمہ(س) نے کہا کہ اس گھر میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حسنین (ع) موجود ہیں۔ اتو عمر نے کہا کہ ہونے دیں۔
حضرت علی کے باہر نہ آنے پر گھر کو آگ لگا دی گئی۔ حضرت فاطمہ دوڑ کر دروازہ کے قریب آئیں اور کہا کہ ابھی تو میرے باپ کا کفن میلا نہ ہوا۔ یہ تم کیا کر رہے ہو۔ اس پر ان پر دروازہ گرادیا گيا اسی ضرب سے حضرت فاطمہ شہید ہوئیں ، روایات کے مطابق ان کے بطن میں محسن شہید ہوئے۔
حضرت فاطمہ زہرا(س) کی شہادت تین جمادی الثانی 11ھ کو ہوئی اور صحیحین کے مطابق حضرت فاطمہ (س) نے وصیت کی کہ انہیں رات کے وقت دفنایا جائے حضرت فاطمہ (س) کے جنازے میں حضرت علی، حضرت حسن و حسین،حضرت عقیل ابن ابی طالب، حضرت سلمان فارسی، حضرت ابوذر غفاری، حضرت مقداد ابن اسود، حضرت عمار ابن یاسر اور حضرت بریدہ شریک تھے۔ دیگر روایات میں حضرت حذیفہ یمانی، حضرت عباس، حضرت فضل، حضرت عبد اللہ ابن مسعود کا ذکربھی ہے۔ صحیح بخاری میں درج ہے کہ حضرت فاطمہ (س) نے وصیت کی تھی کہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر کو ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہ نے فرمایا کہ ان صحابہ میں سے کوئی بھی جنازے میں نہ آئے جن سے میں ناراض ہوں۔
حضرت فاطمہ کے لئے چالیس قبریں بنائي گئیں تاکہ اصل قبر کا پتہ نہ چل سکے اکثر اور مشہور روایات کے مطابق حضرت فاطمہ کوجنت البقیع میں دفن کیا گیا، بعض روایات کے مطابق گھر میں دفن ہوئیں، اور جب عمر ابن عبدالعزیز نے مسجد نبوی کی توسیع دی تو حضرت فاطمہ کا گھر مسجد میں شامل ہو گیا۔ نبی مکرم اسلام کی نور نظر، پارہ جگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی قبر آج تک مخفی ہے کسی کو صحیح پتہ نہیں کہ وہ کس مقام پر دفن ہیں اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کی قبر کا مخفی ہونا ان پر ہونے والے مظالم کا واضح ثبوت ہے۔ (1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1: تاریخ طبری از ابن جریر الطبری، مروج الذہب از علامہ مسعودی، ازالۃ الخفاء از شاہ ولی اللہ،مدارج النبوۃ رکن 4 باب 3، تاریخ یعقوبی جلد 2، تاریخ بلاذری در تذکرۂ بیعت حضرت ابوبکر، الفاروق از شبلی نعمانی حصہ اول، مناقب ابن شہر آشوب، صحیح مسلم و صحیح بخاری ۔
آپ کا تبصرہ