30 نومبر، 2025، 7:51 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

صہیونی حکومت کی جارحیت کے سائے میں شام کو تقسیم کرنے کا منظرنامہ

صہیونی حکومت کی جارحیت کے سائے میں شام کو تقسیم کرنے کا منظرنامہ

جولانی کے قبضے اور فرقہ وارانہ حملوں نے شام کی سیکورٹی اور سماجی ڈھانچے کو اتنا کمزور کردیا ہے کہ ملک کی تقسیم کا عمل رکنا اب تقریبا ناممکن ہوگیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: شام کے صوبے حمص، حماہ، حلب، السویدا اور ساحلی علاقوں میں حالیہ سیکورٹی حالات ظاہر کرتے ہیں کہ شام کی تقسیم کا راستہ اب بند نہیں کیا جاسکتا، اور یہ عمل صرف جولانی کے ناجائز قبضے کو ختم کیے بغیر روکا نہیں جاسکتا۔ ابو محمد جولانی کے تکفیری گروہ کے حالیہ فرقہ وارانہ حملوں نے حمص کے علوی علاقوں میں شام کی سیکورٹی اور سیاسی صورت حال کی نزاکت، شدید فرقہ وارانہ کشیدگی اور سماجی ڈھانچے کی تباہی کو مزید نمایاں کردیا ہے۔

حمص میں عوامی احتجاجات

علویوں پر حملے بنو خالد قبیلے کے بادیہ نشین گروہوں کے ذریعے شروع کیے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ جولانی کے حامی فوجی بھی ان میں شامل تھے۔ ان حملوں کے بعد علوی کمیونٹی نے صدر اعلیٰ اسلامی علوی کونسل شیخ غزال کی دعوت پر ساحلی اور وسطی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے جولانی کی حکومت سے علیحدگی کا مطالبہ کیا تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ شام کے مذہبی گروہ، جو قومی حکومت کی غیر موجودگی سے متاثر ہیں، جولانی کے قبضے کے خلاف ایک ایسے مرحلے میں پہنچ چکے ہیں جہاں واپس پلٹنا ممکن نہیں رہا۔

اگرچہ دروزی، علوی، کرد اور شیعہ گروہ جولانی کے قبضے سے سب سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں، لیکن دمشق، حلب، حماہ، دیرالزور اور درعا جیسے بڑے شہروں میں صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ مختلف مذاہب اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے شہری بھی شدید حملوں کا شکار ہوئے ہیں، اور تمام شہریوں پر تکفیری سوچ رکھنے والے گروہوں نے شدید تشدد ڈھایا ہے۔

حسکہ میں علیحدگی پسند رجحانات

جولانی کے زیرِ قبضہ شام کے علاقوں میں ہیئت تحریرالشام کی طرف سے قتل، ظلم اور سخت گیر پالیسیوں نے عوام کو اس حد تک تنگ کردیا ہے کہ مختلف علاقوں میں علیحدگی کے مطالبات تیزی سے بڑھنے لگے ہیں۔ علیحدگی کا پہلا مطالبہ چند ماہ قبل حسکہ میں مشرقی شام کی خودمختار انتظامیہ کے ایک اجلاس میں سامنے آئی تھی۔ حال ہی میں شامی ڈیموکریٹک فورسز کے کمانڈر مظلوم عبدی نے علوی اور دروزی گروہوں کو دمشق کے ساتھ مذاکرات میں شامل کرنے کی تجویز دی، تاکہ جولانی کے قبضے کے خلاف سب کے موقف کو مضبوط کیا جاسکے۔

سویدا اور درعا میں علیحدگی کے حق میں احتجاج

سویدا میں شیخ حکمت الهجری کی قیادت میں علیحدگی کے مطالبات واضح طور پر سامنے آئے ہیں۔ یہ رجحان خاص طور پر اسرائیل کی براہ راست مداخلت اور ہلاکتوں و لاپتہ افراد کی وجہ سے مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔  درعا کے مشرقی اور شمال مشرقی علاقوں، اور سویدا کے شمالی و مغربی دیہاتوں میں جولانی کے سیکیورٹی گروہوں اور مقامی قبائل کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ ان جھڑپوں کے بعد جبل حوران کے لوگوں اور جولانی کے زیرقبضہ علاقوں کے درمیان دوری اور اختلاف مزید بڑھ گیا ہے۔ اسی دوران یہ بھی خبر ہے کہ دمشق نے سویدا کو محدود خودمختاری دینے کے خفیہ پیغامات بھیجے ہیں۔

جولانی کی صہیونی حکومت سے قربت کی کوششیں

دوسری جانب جنوبی علاقوں میں جولانی کے قبضے اور دروزیوں کے خلاف سخت اقدامات کے بعد دروزی کمیونٹی اسرائیل کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق جولانی اسرائیل کے ساتھ خفیہ سیکیورٹی معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا، جسے صہیونی پارلیمنٹ نے سختی سے مسترد کر دیا اور اس کے گروہ کو دہشت گرد قرار دے دیا۔ نتن یاہو نے بھی جنوبی علاقے میں نگرانی مزید مضبوط کر دی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جولانی کی سخت پالیسیوں اور عرب ممالک کی خاموشی نے دروزیوں کو اسرائیل کے قریب کردیا ہے، جس سے شام کے جنوبی علاقوں میں تناؤ بڑھنے کا خدشہ ہے۔

ساحلی علاقوں میں علیحدگی کے رجحانات اور مستقبل کے امکانات

شام کے ساحلی علاقوں میں علیحدگی پسند رجحانات بڑھ رہے ہیں اور علوی کمیونٹی کے خلاف روزانہ حملے جاری ہیں۔ ان حملوں کی وجہ سے علوی لوگ خوفزدہ اور مایوس ہیں، اور انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں شدید تشویش ہے۔ عرب ممالک کی خاموشی اور کوئی مدد نہ دینے کے باعث اسرائیل یہ دیکھ رہا ہے کہ آیا علوی گروہ بالآخر اس کی حمایت قبول کرے گا۔ مبصرین کے مطابق علوی کمیونٹی کی مشکلات، مسلسل حملے اور مایوسی کے پیش نظر اسرائیل کے لیے ایک موقع پیدا ہوا ہے۔ اسرائیل اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر اپنے سیاسی اور سیکیورٹی اثرات کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ اس صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کے ساحلی علاقے بھی غیر مستحکم ہو رہے ہیں اور وہاں کی مقامی کمیونٹی کے حالات دن بہ دن خراب ہو رہے ہیں۔

موجودہ حالات کے پیش نظر، ایسا لگتا ہے کہ شام کو تقسیم ہونے سے روکنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ملک کو تکفیری گروہ کے قبضے سے آزاد کرکے سیاسی عبوری حکومت کے ماتحت لایا جائے اور ایک کثیر جماعتی نظام قائم کیا جائے جو شام کی مذہبی و نسلی تنوع اور اس کی سرزمین کی وحدت کی حفاظت کرے۔ تاہم موجودہ حقائق اور مستقبل کے ممکنہ حالات کے پیش نظر اس سناریو کے عملی ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

News ID 1936833

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha