مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لبنانی روزنامہ الاخبار نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ شام میں سیکیورٹی چیلنجز کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے جس کے نتیجے میں جولانی رژیم کے سیکیورٹی ڈھانچے پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ سیکیورٹی ڈھانچہ وہی ہے جو ماضی میں ہیئت تحریر الشام نے ادلب پر قبضے کے دوران قائم کیا تھا۔ اس وقت جنگی حالات کے تحت صوبے کے انتظام اور داخلی نظم و نسق کے لیے یہ ڈھانچہ کارآمد سمجھا جاتا تھا۔ ہیئت اس وقت مختلف دھڑوں کو اپنے پرچم تلے متحد کرنے میں کامیاب ہوئی تھی جس کے نتیجے میں ادلب میں اس کی گرفت مضبوط ہوئی اور شمالی شام میں وہ ایک بڑی مسلح طاقت کے طور پر ابھری۔
تاہم اب جب کہ ملک میں جنگ کے محاذ سرد پڑ چکے ہیں، واشنگٹن کرد مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات پر زور دے رہا ہے، سویدا میں دروز اقلیت کو اسرائیل کی حمایت حاصل ہے، اور داخلی تنازعات میں کمی آئی ہے، اس ماڈل کی کامیابی پر سنگین شکوک پیدا ہو گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جولانی رژیم کو ایک اور بڑے چیلنج یعنی غیرملکی مسلح گروہوں کا بھی سامنا ہے۔ ان گروہوں کو کنٹرول میں لانے، تحلیل کرنے یا وزارتِ دفاع کے ڈھانچے میں ضم کرنے کی کوششیں عوامی مزاحمت اور مسلسل رکاوٹوں سے دوچار ہیں۔ کسی بھی رکن کی گرفتاری عام طور پر گروہی تصادم اور پرتشدد ردعمل کا باعث بنتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دمشق کے نواحی علاقے معضمیہ میں بین الاقوامی اتحاد اور جولانی رژیم کے درمیان مشترکہ سیکیورٹی آپریشن کے دوران خالد المسعود سمیت تین افراد کو داعش سے تعلق کے شبے میں گرفتار کیا گیا، تاہم ایک روز بعد المسعود تفتیش کے دوران ہلاک ہو گیا، جس کے بعد علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی۔
موجودہ حالات میں شمال مغربی شام میں غیرملکی مسلح گروہ سرگرم ہیں جبکہ بڑے شہروں میں بھی "ہیئت تحریر الشام" کے سابقہ عناصر اور دیگر دھڑے آزادانہ طور پر برابری کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔ ان گروہوں کی کارروائیوں میں عوام سے زمین اور رقم کا غیرقانونی حصول عام ہے۔
وسطی اور جنوبی شام میں امریکی حمایت یافتہ قبائلی گروہ اور نام نہاد "آزاد فوج" متحرک ہیں، جب کہ شمال مشرقی حصے میں ترکی کی سرپرستی میں قائم "قومی فوج" کے گروہ سرگرم ہیں۔
الاخبار کے مطابق، یہ صورتِ حال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ملک میں واضح ریاستی ڈھانچہ کمزور پڑ چکا ہے، جب کہ فریقوں، قبائل، علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں کے درمیان خفیہ رقابتوں نے سیکیورٹی نظام کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ ماہرین کے نزدیک یہی عوامل شام کو بتدریج لیبیا جیسے عدم استحکام کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
آپ کا تبصرہ