مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت امورِ خارجہ نے غزہ کے بارے میں سلامتی کونسل کی قرارداد پر ایک بیان جاری کیا۔
اس بیان کا متن درج ذیل ہے:
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارتِ امورِ خارجہ نسل کشی اور صہیونی رژیم کی فلسطینی عوام اور غزہ کے خلاف جرائم کے خاتمے کے لیے ہر علاقائی یا بین الاقوامی اقدام، غزہ کی پٹی میں مؤثر انسانی امداد کی رسائی اور قابض صہیونی قوتوں کے مکمل انخلا کی حمایت کرتی ہے اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2803 کے مندرجات کے بارے میں اپنی سنجیدہ تشویش کا اظہار کرتی ہے۔
اس قرارداد کے بیشتر مندرجات فلسطینی قوم کے جائز حقوق کے منافی ہیں اور غزہ کی پٹی پر ایک قسم کا نظامِ قیمومیت نافذ کر کے فلسطینی قوم کے بنیادی حقوق—خصوصاً حقِ خود ارادیت اور القدس شریف کو پایتخت بنا کر آزاد فلسطینی ریاست کے قیام—کو ان سے سلب کرتے ہیں۔
اس قرارداد کے مرتب کرنے والوں نے دانستہ طور پر اقوامِ متحدہ کے مرکزی مقام و کردار اور حتیٰ کہ اسی ادارے کی فلسطین سے متعلق سابقہ قراردادوں کو نظر انداز کیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران، صہیونی جارح اور متجاوز رژیم کی جانب سے غزہ کی پٹی کے قبضے کو کوئی مشروعیت دینے، غزہ کو تقسیم کرنے اور اسے فلسطین کی واحد جغرافیائی وحدت سے جدا کرنے کو فلسطینی عوام کے آرمانوں کے منافی سمجھتی ہے اور اس کے خطرناک نتائج کے بارے میں خبردار کرتی ہے۔
بین الاقوامی فورسز کو لازماً اقوامِ متحدہ کی کامل نگرانی میں عمل کرنا چاہیے، اور ان کی ذمہ داری فقط جنگ بندی کے نفاذ کی نگرانی اور بین الاقوامی انسانی امداد کی رسائی و تقسیم تک محدود ہونی چاہیے۔
اسلامی جمہوریہ ایران عالمی برادری، خصوصاً جنگ بندی کے ضامنوں کی ذمہ داری پر زور دیتی ہے کہ وہ نسلی امتیاز پر مبنی اور قابض صہیونی رژیم کو فلسطین میں قبضہ ختم کرنے اور غزہ کی پٹی سے مکمل انخلا پر مجبور کریں؛ اور یہ باور کراتی ہے کہ کوئی بھی فیصلہ اس امر کو مخدوش نہیں کر سکتا اور نہ کرنا چاہیے۔
اسلامی جمہوریہ ایران بین الاقوامی قانون کے مطابق قبضے، نسلی امتیاز اور استعمار کے خلاف مزاحمت کی مشروعیت پر تاکید کرتی ہے اور مزاحمت کو فلسطینی قوم کا جائز جواب سمجھتی ہے، جو فلسطینی سرزمین پر جاری قبضے اور صہیونی رژیم کی مسلسل جارحیت کے مقابل ہے۔
تاکید کی جاتی ہے کہ فلسطینی قوم کے مقدر—بشمول فلسطینی سرزمینوں کی حکمرانی کے طریقِ کار—سے متعلق ہر بحث فلسطینیوں کے قومی اتفاق و اجماع کے دائرے میں ہونی چاہیے، اور اس معاملے میں بیرونی فریقوں کی جانب سے کسی بھی حل کی تحمیل مردود ہے۔
موجودہ صورتحال میں، جب کہ فلسطینی عوام غزہ اور غربِ اردن میں نسل کشی اور جبری قحط کے خطرات سے دوچار ہیں، انسانی امداد کی فراہمی، امدادرسانی اور تمام گذرگاہوں کی مکمل بحالی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
عالمی برادری سے فوری توقع یہ ہے کہ وہ صہیونی رژیم پر مؤثر دباؤ ڈال کر اس کی جاری جنایت اور قبضے، نیز غزہ کی پٹی اور غربِ اردن میں فلسطینیوں کے حقوق کی سنگین و آشکارا خلاف ورزیوں کو روکے، اور فلسطینی قوم کے بنیادی حقوق کے حصول میں معاونت کرے۔
اسی طرح، گزشتہ دو برس میں فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی واضح کوتاہی اور بے عملی کے پیشِ نظر، اس کونسل اور اس کے رکن ریاستوں کی ذمہ داری یاد دلائی جاتی ہے کہ وہ جنگی مجرموں اور نسل کشی کے مرتکبین کا مواخذہ کریں اور انہیں جواب دہ ٹھہرائیں۔
آپ کا تبصرہ