مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: قابض اسرائیلی فوج نے رفح میں اپنے ایک فوجی کی ہلاکت کو جواز بناتے ہوئے غزہ پٹی پر شدید فضائی بمباری کی، جس سے متعدد رہائشی علاقے ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ تازہ حملوں نے نہ صرف درجنوں شہریوں کو متاثر کیا بلکہ شرم الشیخ میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کی بھی کھلی خلاف ورزی کی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ کارروائی گزشتہ چند ماہ میں فائر بندی کی سب سے سنگین خلاف ورزیوں میں شمار ہوتی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی یہ تازہ جارحیت مغربی ایشیا میں امریکا کی نام نہاد “امن پالیسی” کی ناکامی کو مزید نمایاں کرتی ہے، جو زمینی حقائق کے بجائے تل ابیب کے مفادات کے گرد گھومتی ہے۔
ذرائع کے مطابق حالیہ حملوں سے قبل بھی اسرائیلی فوج نے اپنے لاپتہ اہلکاروں کی لاشیں واپس نہ ملنے کے بہانے مختلف علاقوں میں محدود فضائی کارروائیاں کی تھیں۔ تاہم عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ جب لاکھوں ٹن ملبہ پورے غزہ کو ڈھانپ چکا ہو اور تلاش کے لیے ضروری آلات دستیاب نہ ہوں، تو لاشوں کی برآمد ممکن نہیں۔
ماہرین کے بقول، تل ابیب کا یہ مؤقف دراصل ایک نیا سیاسی بہانہ ہے جسے غزہ میں جارحیت جاری رکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل دانستہ طور پر جنگ اور امن کے درمیان ایک غیر یقینی فضا برقرار رکھ کر اپنی فوجی برتری قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکی امن منصوبوں کی حقیقت آشکار
تجزیاتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو حالیہ واقعات نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ امریکی ثالثی پر مبنی امن منصوبے کسی تنازع کے خاتمے کے لیے نہیں، بلکہ ایک عارضی اور کمزور توازن کو دوبارہ پیدا کرنے کے مقصد سے تیار کیے جاتے ہیں۔ تاریخی تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ واشنگٹن، خصوصاً صدر ٹرمپ کے دور میں، امن کو کبھی ایک انسانی اور دیرپا ہدف کے طور پر نہیں دیکھتا رہا، بلکہ اسے ایک سیاسی و تزویراتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ایسا ذریعہ جس کے ذریعے امریکا نے خطے میں اپنا اثر و رسوخ مضبوط کیا اور اسرائیلی حکومت کو مسلسل حمایت فراہم کی۔
غزہ کے لیے متعارف کرایا گیا “ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ” بھی اسی حکمت عملی کی توسیع تھا۔ بظاہر اس منصوبے کا مقصد دو سالہ جنگ کا خاتمہ دکھایا گیا، لیکن دراصل اس کے پیچھے تل ابیب کے مطالبات مسلط کرنے اور فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی کوشش چھپی ہوئی تھی۔
حماس نے منصوبے کی اس فریب کارانہ نوعیت کو بروقت محسوس کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور یہ فیصلہ جو بعد کے واقعات نے درست ثابت کر دیا۔ حالیہ اسرائیلی حملے، جنہیں تجزیہ کار واشنگٹن کی “خاموش منظوری” قرار دے رہے ہیں، اور اس کے فوراً بعد ٹرمپ کے جانب سے حماس کو دی جانے والی دھمکیاں، اس حقیقت کو مزید واضح کرتی ہیں کہ امریکا امن کا ضامن نہیں، بلکہ اس کی خلاف ورزی میں شریک کردار ہے۔
اسرائیل کی جانب سے معاہدوں کی خلاف ورزیوں کا طویل ریکارڈ
قابض اسرائیلی ریاست کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کوئی نیا واقعہ نہیں، بلکہ اس کی پالیسی کا مستقل حصہ بن چکی ہے۔ اپنے ناجائز قیام سے اب تک اسرائیل نے شاید ہی کوئی معاہدہ ایسا کیا ہو جسے طویل مدت تک برقرار رکھا گیا ہو۔ 1990 کی دہائی کے اوسلو معاہدے سے لے کر غزہ کے ساتھ ہونے والی بارہا جنگ بندیوں تک، اور لبنان کے ساتھ سرحدی تفاهمات سے لے کر حالیہ شرم الشیخ معاہدے تک، ہر سمجھوتا بالآخر اسرائیلی وعدہ شکنی کا شکار ہوا۔
لبنان کے معاملے میں یہ رویہ سب سے واضح انداز میں سامنے آیا۔ بین الاقوامی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق، اسرائیل نے بیروت کے ساتھ طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے بعد اب تک چار ہزار سے زائد مرتبہ اس کی خلاف ورزی کی ہے۔ اب یہی طرزِ عمل غزہ میں دہرایا جا رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق قابض اسرائیلی فوج اس وقت ایک ایسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جسے “نیم فعال جنگ” کہا جا سکتا ہے۔ یعنی ایک ایسی صورت حال جس میں نہ مکمل امن قائم کیا جاتا ہے، نہ کھلی جنگ چھیڑی جاتی ہے۔ اس پالیسی کے ذریعے اسرائیل ایک طرف عالمی دباؤ کو محدود رکھنے کی کوشش کرتا ہے، تو دوسری جانب اپنی عسکری برتری کو برقرار رکھنے کے لیے میدان جنگ کو جزوی طور پر گرم رکھتا ہے۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ طرزِ عمل دراصل طاقت نہیں، کمزوری کی علامت ہے۔ دو سالہ غیر نتیجہ خیز جنگ کے بعد اسرائیل پہلے سے زیادہ سیاسی اور سفارتی طور پر تنہا ہو چکا ہے۔ معاہدوں کی مسلسل خلاف ورزیوں نے نہ صرف اس کی بین الاقوامی ساکھ کو مجروح کیا ہے بلکہ عالمی سطح پر “امن” اور “ثالثی” جیسے تصورات کو بھی کمزور کر دیا ہے۔
لاشوں کے بہانے: غزہ میں جارحیت جاری رکھنے کی حکمت عملی
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران قابض اسرائیلی فوج نے ہلاک شدہ قیدیوں کی لاشوں کی فراہمی میں تاخیر کو غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں کے لیے جواز کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ فلسطینی مزاحمت نے معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت 20 زندہ قیدی رہا کر کے متعلقہ اداروں کے حوالے کیے، تاہم تل ابیب نے اس انسانی اقدام کو سراہنے کی بجائے ہلاک شدہ قیدیوں کی لاشوں کو جارحانہ کارروائیوں کی توجیہہ بنانے کے لیے پیش کیا۔
فلسطینی ماہرین، جن میں ہانی الدالی شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ اسرائیل خود میدان میں رکاوٹیں پیدا کر کے لاشوں کی بازیابی کو ناممکن بنا رہا ہے۔ کچھ لاشیں ایسے علاقوں میں ہیں جہاں معاہدے کے تحت غاصب اسرائیلی افواج کو پیچھے ہٹنا تھا اور دیگر لاشیں تباہ شدہ سرنگوں کی گہرائیوں میں موجود ہیں جن تک پہنچنے کے لیے خصوصی آلات کی ضرورت ہے، جو دستیاب نہیں۔
عسکری ماہرین، جن میں حسن جونی بھی شامل ہیں، تنبیہ کرتے ہیں کہ تل ابیب ہلاک شدہ قیدیوں کی لاشوں کے معاملے کو ایک تاکتیکی بہانے کے طور پر بروئے کار لا رہا ہے تا کہ میدانِ عمل میں ایک نئی حقیقت مسلط کی جا سکے۔ اس ماڈل کے تحت اسرائیل بوقتِ ضرورت محدود یا وسیع پیمانے پر کارروائیاں دوبارہ شروع کر سکتا ہے، مگر باضابطہ طور پر جنگ بندی کی صریح خلاف ورزی کا اعتراف نہیں کرتا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ رویہ پہلے جنوبی لبنان کی سرحدوں پر اپنائے گئے اور اس کا مقصد جنگ اور امن کے درمیان غیر یقینی فضا برقرار رکھتے ہوئے اپنی عسکری برتری کو محفوظ رکھنا ہے۔
امریکہ امن کا ضامن یا اسرائیلی جارحیت کا سہولت کار؟
صدر ٹرمپ کے بیانات کے بعد امریکا کا کردار مشرق وسطیٰ میں پہلے سے زیادہ واضح ہو گیا ہے۔ واشنگٹن بظاہر جنگ بندی کے ضامن اور ثالث کے طور پر پیش آتا ہے، لیکن عملی طور پر اسرائیل کو غزہ اور لبنان میں مکمل آزادی عمل فراہم کر رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا نہ صرف تل ابیب کی جارحیت کو محدود نہیں کرتا، بلکہ اپنی سیاسی، اطلاعاتی اور عسکری حمایت کے ذریعے جنگ کے تسلسل کو سہل بنا رہا ہے۔ یہ رویہ امریکی خارجہ پالیسی کے تناظر میں متوقع ہے۔
تاریخ اس بات کا ثبوت دیتی ہے کہ جب بھی امریکا نے مشرق وسطیٰ میں امن ثالث کے طور پر کردار ادا کیا، نتیجہ اکثر خطے میں عدم استحکام اور اسرائیلی قبضے کے تسلسل کی صورت میں نکلا "کمپ ڈیوڈ سے اوسلو، عرب امن منصوبے سے معاہدہ صدی تک" سب کا مشترکہ مقصد واضح رہا ہے: اسرائیل کی برتری کو مستحکم کرنا اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کو نظر انداز کرنا۔
نتیجہ
غزہ میں جاری واقعات اور شرم الشیخ معاہدے کے بعد اسرائیلی طرز عمل نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ امن جو قبضے اور ناانصافی پر قائم ہو، حقیقی امن نہیں کہلا سکتا۔ واشنگٹن اور تل ابیب “امن” کے نعرے کے تحت دراصل ایک سیاسی و عسکری منصوبہ آگے بڑھا رہے ہیں، جس کا مقصد فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنا اور اسرائیلی قبضے کو مزید مضبوط بنانا ہے۔
اسی دوران مغربی میڈیا اور ادارے ایک مخصوص بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں، جس کے ذریعے اسرائیلی حملوں کو “دفاع” کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن زمینی حقائق اور شواہد اس دعوے کو جھٹلاتے ہیں۔ فلسطینی مزاحمت نے ہمیشہ یہ ثابت کیا ہے کہ وہ انسانی بنیادوں پر ہونے والے معاہدوں کی پاسداری کرتی ہے، بشرط یہ کہ مخالف فریق بھی اپنے وعدوں پر قائم رہے۔
آج غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ مزاحمت کی جانب سے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ ہے، جس کا مقصد جنگ اور امن کے درمیان غیر یقینی فضا برقرار رکھنا ہے۔ ایک ایسی فضا جس میں غاصب اسرائیل اپنی فوجی برتری کو قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
آخرکار یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ امریکا کی نام نہاد “امن پالیسی” نہ حقیقی صلح ہے اور نہ پائیدار جنگ بندی۔ یہ محض ایک سیاسی کھیل ہے جو مختلف ناموں سے پیش کیا جاتا ہے مگر اس کا مقصد ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے۔ جب تک قبضہ، محاصرہ اور امتیازی رویے ختم نہیں ہوتے، کوئی بھی معاہدہ "چاہے وہ شرم الشیخ میں ہو یا وائٹ ہاؤس میں" پائیدار امن نہیں لا سکتا۔
آپ کا تبصرہ