16 اکتوبر، 2025، 10:48 AM

جوہری پروگرام محض بہانہ ہے، مذاکرات کے حامی ہیں لیکن دھونس دھمکی قبول نہیں، سینیئر مشیر رہبر معظم

جوہری پروگرام محض بہانہ ہے، مذاکرات کے حامی ہیں لیکن دھونس دھمکی قبول نہیں، سینیئر مشیر رہبر معظم

رہبر معظم کے سینئر مشیر نے کہا ہے کہ ایران باوقار، دانشمندانہ اور مصلحت پر مبنی مذاکرات کے لیے تیار ہے مگر کسی قسم کی زبردستی یا مسلط کردہ شرائط کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی اسٹریٹجک کونسل برائے خارجہ تعلقات کے سربراہ اور رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے سینئر مشیر کمال خرازی نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران مذاکرات کو کمزوری نہیں بلکہ عقل و حکمت کی علامت سمجھتا ہے تاہم کسی بھی قسم کی زبردستی یا مسلط کردہ شرائط کو مسترد کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران مذاکرات کے لیے تین بنیادی اصولوں پر یقین رکھتا ہے: عزت، حکمت اور مصلحت۔ اگر مذاکرات منطقی بنیادوں پر ہوں اور ایران کی قومی عزت کا احترام کیا جائے، تو ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں، لیکن اگر کوئی چیز ہم پر تھوپی گئی تو ہم اس کے خلاف ڈٹ جائیں گے۔

انہوں نے رہبر انقلاب کے گزشتہ ماہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکہ کی جوہری مذاکرات سے متعلق شرائط کو مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ دھمکیوں کے تحت کوئی باعزت قوم یا دانشمند رہنما مذاکرات قبول نہیں کرتا۔

خرازی نے کہا کہ امریکہ پہلے ہی مذاکرات کا نتیجہ طے کرچکا ہے یعنی ایران کی جوہری سرگرمیوں اور یورینیم افزودگی کا خاتمہ جو مذاکرات نہیں بلکہ مسلط کردہ حکم ہے۔

سینئر مشیر نے کہا کہ ایران نے امریکہ سے بالواسطہ مذاکرات کی منظوری دی تاکہ دنیا کو دکھایا جاسکے کہ ایران بات چیت سے نہیں بھاگتا، بلکہ منطق اور خیرسگالی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ پانچ دور کی بات چیت میں ایران کی عزت مکمل طور پر محفوظ رہی، کوئی ایسا معاہدہ نہیں ہوا جو قومی مفادات کے خلاف ہو، اور ایران کے افزودگی کے حق کو تسلیم کیا گیا۔

خرازی نے کہا کہ مذاکرات کے دوران اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران پر حملہ مغربی قوتوں کی غیر سنجیدگی اور اصل عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایران اپنے میزائل پروگرام یا خطے میں مزاحمتی بلاک کی حمایت پر کوئی بات چیت نہیں کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ایران کی دو دہائیوں پر محیط جوہری سفارت کاری اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران نے کبھی سفارت کاری سے انکار نہیں کیا۔ ایران نے سابق صدور محمد خاتمی اور حسن روحانی کے ادوار میں بھی جوابی اقدامات کیے، جو قانونی اور منطقی تھے۔

خرازی نے کہا کہ ایران نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے اضافی پروٹوکول کو رضاکارانہ طور پر نافذ کیا، جس کے تحت ایجنسی کو بغیر اطلاع کے جوہری تنصیبات کا معائنہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ ایجنسی کے موجودہ ڈیٹا سے واضح ہوتا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی طرف نہیں جا رہا۔

انہوں نے کہا کہ یورینیم افزودگی پر پابندیاں برداشت کرنا ایران کے لیے خود انحصاری کا مسئلہ ہے۔ جس طرح ایران نے دفاعی شعبے میں خود کفالت حاصل کی، اسی طرح توانائی کے شعبے میں بھی خود کفیل ہونا ضروری ہے۔ ایران کا طویل مدتی ہدف 20,000 میگاواٹ جوہری بجلی پیدا کرنا ہے، اور اس کے لیے ایندھن کی تیاری کی صلاحیت ضروری ہے۔ افزودگی ایران کا ناقابل تنسیخ حق ہے اور توانائی کی خود مختاری کی بنیاد ہے۔

خرازی نے 12 روزہ جنگ کے دوران ایران کی مسلح افواج کی کامیاب دفاعی اور جوابی کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے پہل کرکے سنگین غلطی کی، اور ایران کے طاقتور ردعمل نے دشمن کو جنگ بندی پر مجبور کردیا۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران داخلی قوت اور افواج کے عزم پر انحصار کرتے ہوئے ہر قسم کی صورتحال کے لیے تیار ہے۔ جنگ کے دوران اسرائیل نے مغربی ہتھیاروں اور امریکی ریڈار سسٹم پر انحصار کیا، جبکہ ایران نے مکمل خود انحصاری کا مظاہرہ کیا۔

انہوں نے رہبر انقلاب کی قیادت کو سراہتے ہوئے کہا کہ آیت اللہ خامنہ ای نے شہید کمانڈروں کے فوری متبادل مقرر کیے اور تین ٹی وی خطاب کے ذریعے قوم کو حوصلہ دیا اور صورت حال پر مکمل کنٹرول کیا۔

خرازی نے کہا کہ دشمن کا مقصد ایران کے دفاعی نظام کو کمزور کرنا تھا، مگر رہبر کی حکمت اور بروقت اقدامات نے اس سازش کو ناکام بنا دیا اور عوامی حوصلے کو مستحکم کیا۔

News ID 1935961

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha