16 ستمبر، 2025، 8:03 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

محمود عباس پر امریکی پابندی، سازشی عناصر کی رسوائی، مقاومتی موقف کی تقویت

محمود عباس پر امریکی پابندی، سازشی عناصر کی رسوائی، مقاومتی موقف کی تقویت

امریکہ کی جانب سے محمود عباس اور فلسطینی اتھارٹی پر پابندی نے نہ صرف دو ریاستی حل کو عملاً دفن کر دیا ہے بلکہ نام نہاد صلح کے حامی دھڑوں کو بھی تنہا کرکے فلسطینی مزاحمت کے مؤقف کو مزید مضبوط کردیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: فلسطین کی جدوجہد آزادی میں سب سے زیادہ متنازعہ نکتہ "دو ریاستی حل" رہا ہے۔ 1991ء کی میڈریڈ کانفرنس اور اس کے بعد طے پانے والے "اوسلو معاہدے" کے تحت یہ تصور سامنے آیا کہ مقبوضہ فلسطین میں ایک آزاد فلسطینی ریاست اور ایک صہیونی حکومت ساتھ ساتھ قائم ہوں گی۔ امریکہ کے مختلف صدور نے اس منصوبے کو کبھی کم اور کبھی زیادہ اہمیت دی۔ بل کلنٹن کے دور میں اسے آگے بڑھایا گیا، باراک اوباما نے بھی اس پر زور دیا، لیکن عملی طور پر اسرائیلی توسیع پسندی اور بستیوں کی تعمیر نے اس منصوبے کو غیر مؤثر بنا دیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد یہ منصوبہ تقریباً ختم کر دیا گیا۔ ان کی انتظامیہ نے "ڈیل آف سینچری" پیش کیا جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی عملی امکان باقی نہیں رہا۔ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اور فلسطینی قیادت کو دیوار سے لگانے کی پالیسی اپنائی۔ اسی سلسلے کی تازہ کڑی امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا حالیہ فیصلہ ہے جس کے تحت محمود عباس اور فلسطینی اتھارٹی کے دیگر رہنماؤں پر امریکہ آمد کی پابندی لگا دی گئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق، امریکہ نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اور ان کے وفد پر پابندیاں عائد کردیں، جس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ ٹرمپ انتظامیہ فلسطینیوں کے بنیادی حقوق تک کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے قبل فلسطینی قیادت کے ویزے منسوخ کردیے۔ امریکہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ چونکہ فلسطینی اتھارٹی نے 7 اکتوبر کی کارروائی کی مذمت نہیں کی اور اسے دہشت گردی نہیں کہا، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا۔

امریکی وزارت خارجہ نے واضح کیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور فلسطین لبریشن فرنٹ کو عالمی عدالت انصاف سمیت بین الاقوامی قانونی چارہ جوئی ترک کرنی چاہیے اور اسرائیل کے خلاف کیسز واپس لینے ہوں گے۔ اسی طرح فلسطینی ریاست کو یکطرفہ طور پر تسلیم کروانے کی کوششیں بھی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ان پابندیوں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ "دو ریاستی حل" کے بجائے صرف ایک یہودی ریاست کے قیام کے حامی ہیں۔ حتی کہ محمود عباس کو جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے امریکہ آنے پر بھی پابندی لگادی گئی۔ اس اقدام نے واشنگٹن کے عرب اتحادیوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے، کیونکہ وہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔

دو ریاستی حل کی بنیاد 1991ء میں جارج ایچ ڈبلیو بش کے دور میں رکھی گئی اور پھر "میڈرڈ کانفرنس" میں پیش کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں معاہدۂ اوسلو وجود میں آیا۔ بل کلنٹن نے اسے "کیمپ ڈیوڈ II" تک آگے بڑھایا اور بعد ازاں باراک اوباما تک یہ پالیسی جاری رہی۔ مگر ٹرمپ نے "ڈیل آف سینچری" کے ذریعے اسے یکسر نظرانداز کردیا، جس پر امریکہ کے اندر ریپبلکن اور ڈیموکریٹک جماعتوں میں بھی اختلافات پیدا ہوگئے۔

یہ فیصلہ یورپی ممالک کی پالیسیوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے، کیونکہ یورپ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے آمادہ تھا۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے حال ہی میں "گریٹر اسرائیل" کا منصوبہ پیش کیا ہے، جس پر عرب ممالک نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف خطے کے اندر بلکہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے درمیان بھی اختلافات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

مارکو روبیو کے اس فیصلے نے فلسطین میں مذاکرات اور صلح کے حامی دھڑے کو مزید تنہا کردیا ہے۔ جو قوتیں امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ساز باز پر یقین رکھتی تھیں، وہ اب عوامی اعتماد کھو بیٹھیں گی۔ اس کے برعکس، یہ صورتحال فلسطینی مزاحمتی محاذ کے حق میں ثابت ہورہی ہے۔ عوام اور خطے کی رائے عامہ اس بات پر مزید متفق ہورہی ہے کہ اسرائیل کے خلاف واحد مؤثر راستہ امریکہ کے ساتھ سازش اور مذاکرات نہیں بلکہ مزاحمت ہی ہے۔

News ID 1935383

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha

    تبصرے

    • PK 15:07 - 2025/09/17
      0 0
      جب تک اسرائیل اور امریکہ کو اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیا گیا تب تک یہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے ۔