10 ستمبر، 2025، 6:22 PM

لبنانی مبصر کی مہر نیوز سے گفتگو:

فوج حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی؛ امریکہ پس پردہ بڑی سازش میں مصروف ہے

فوج حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی؛ امریکہ پس پردہ بڑی سازش میں مصروف ہے

لبنانی مبصر نے کہا کہ لبنانی فوج حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، امریکہ لبنان میں بڑی سازش کررہا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی بین الاقوامی ڈیسک: لبنان میں حزب اللہ کا معاملہ کئی دہائیوں سے ملکی اور علاقائی سیاست میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ حزب اللہ نہ صرف ایک سیاسی جماعت ہے بلکہ ایک مزاحمتی قوت بھی ہے، جس نے اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف، بعض داخلی و خارجی قوتیں مسلسل یہ دباؤ ڈال رہی ہیں کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرکے فوج کے ماتحت کیا جائے۔

حالیہ دنوں میں لبنانی کابینہ نے ایک نیا منصوبہ منظور کیا ہے جس کے مطابق ہتھیاروں کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہونا چاہیے۔ بظاہر یہ منصوبہ “ریاستی اقتدار” کو مضبوط بنانے کے لیے پیش کیا گیا ہے، لیکن حقیقت میں یہ زیادہ تر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ فوج کے سپرد اس منصوبے کے نفاذ کی ذمہ داری تو دے دی گئی ہے، لیکن فوجی قیادت نے خود ہی اعتراف کیا ہے کہ موجودہ حالات اور وسائل کے ساتھ یہ ممکن نہیں۔

مزید برآں، اس منصوبے پر لبنانی عوام کے اندر بھی اس منصوبے سے اختلاف پایا جاتا ہے۔ سروے بتاتے ہیں کہ ایک بڑی اکثریت، خاص طور پر شیعہ آبادی، حزب اللہ کے ہتھیاروں کو قومی دفاع اور مزاحمت کے لیے ضروری سمجھتی ہے۔

بین الاقوامی سطح پر بھی یہ معاملہ شدت اختیار کرچکا ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب اس منصوبے کی پشت پناہی کرتے ہیں، جبکہ اسرائیل کے لیے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا ایک دیرینہ ہدف رہا ہے۔ لبنانی ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ دباؤ دراصل صہیونی مفادات کے تحفظ کے لیے ڈالا جا رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق، فوج نے اس منصوبے کو پانچ مرحلوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا مرحلہ جنوبی لیتانی میں فوجی کارروائی سے شروع ہوگا، دوسرا مرحلہ لیتانی اور اولی دریا کے درمیانی علاقے میں ہوگا، تیسرا بیروت اور اس کے مضافات میں، چوتھا بقاع خطے میں اور پانچواں پورے لبنان میں ہتھیاروں کا کنٹرول ریاست تک محدود کرنے پر مشتمل ہوگا۔

اسی پس منظر میں مہر نیوز نے لبنانی ماہرِ بین الاقوامی امور علی فضل اللہ سے گفتگو کی، تاکہ اس منصوبے کی حقیقت، اس کے مضمرات اور بیرونی مداخلت کے پہلوؤں کو سمجھا جاسکے۔

مہر نیوز: لبنانی فوج کی جانب سے پیش کردہ منصوبہ، جس کے تحت ہتھیار صرف ریاست کے اختیار میں ہوں، کسی ٹائم فریم کے بغیر ہے۔ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا وقت مقرر نہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ اس منصوبے کے بند گلی میں پھنسنے کے مترادف ہے؟

علی فضل اللہ: حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے وقت مقرر نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ لبنان کے اندرونی معاملات نے کسی حد تک امریکی-سعودی منصوبے کو متاثر کیا ہے، جو لبنانی عوام سے طاقت چھیننے کی کوشش تھی۔ اس وقت ایک رکاوٹ موجود ہے اور حتمی فیصلہ اب بھی بیرونی قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں انتظار کرنا ہوگا کہ وہ اس حوالے سے کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

مہر نیوز: اس منصوبے کی تفصیلات کو فوج نے خفیہ کیوں رکھا ہے؟

علی فضل اللہ: یہ فطری بات ہے، کیونکہ فوجوں کا طریقہ کار ہی پوشیدگی اور خفیہ کارروائیوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لبنانی فوج اپنی موجودہ صلاحیت اور وسائل کے ساتھ اس منصوبے کو نافذ کرنے کی قابل نہیں ہے۔ مختلف سروے بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ تقریبا 60 فیصد لبنانی عوام حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے منصوبے کی مخالفت کرتے ہیں۔

مہر نیوز: کیا لبنانی فوج کا یہ منصوبہ، جس کے تحت ہتھیار صرف ریاست کے اختیار میں ہوں، قابلِ عمل ہے اور کیا اس منصوبے کے بارے میں لبنانی عوام میں اتفاقِ رائے موجود ہے؟

علی فضل اللہ: فوج کے کمانڈر نے کابینہ کے اجلاس میں صاف کہا کہ فوج اس مشن کو انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ جب تک کئی شرائط پوری نہیں ہوتیں، یہ منصوبہ صرف کاغذ پر ایک تحریر ہی رہے گا۔ مزید یہ کہ لبنانی معاشرے میں بھی اس منصوبے پر کوئی اتفاقِ رائے موجود نہیں ہے۔

کوئی یہ نہیں چاہتا کہ ملکی امن و امان خطرے میں پڑے۔ کوئی نہیں چاہتا کہ لبنان خانہ جنگی کی طرف جائے۔ کوئی یہ بھی نہیں چاہتا کہ فوج اور حزب اللہ کے درمیان براہِ راست جھڑپ ہو۔ لیکن اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک کچھ عناصر ہیں جو لبنان میں خانہ جنگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مہر نیوز: اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں امریکہ کا کتنا کردار ہے؟

علی فضل اللہ: امریکی اس منصوبے پر زور دے ہیں تاکہ صہیونی حکومت کے مفادات پورے ہوں۔ لیکن وہ اب تک اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ان کا مقصد یہ بھی نہیں کہ صہیونیوں سے کوئی رعایت لیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تل ابیب نے گذشتہ سال 27 نومبر کو جنگ بندی معاہدے کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ صہیونی حکومت اس معاہدے کی ہرگز پابندی نہیں کر رہی بلکہ اسے اب تک 3000 سے زیادہ بار توڑچکی ہے۔

News ID 1935285

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha