مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک-حسن نوریان ایرانی سینئر سفارتکار: 1981 میں اس وقت کے صدر محمد علی رجائی اور وزیر اعظم محمد جواد باہنر دہشت گرد تنظیم منافقین خلق کے ایک بم دھماکے میں شہید ہوئے۔ اس کے بعد سے اسلامی جمہوریہ ایران میں 30 اگست کو "یومِ انسدادِ دہشت گردی" کے طور پر منایا جاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ گذشتہ چار دہائیوں میں دہشت گردی نے ایران کو شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے۔ ایران دنیا میں اس عفریت کا سب سے بڑا شکار بنا ہے۔
اعداد و شمار اور تاریخی شواہد سے ایران کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد سے 23 ہزار سے زیادہ ایرانی شہری دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں شہید ہوئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ اندرون ملک، منافقین خلق سب سے زیادہ بدنام تنظیم ہے، جو 17 ہزار سے زیادہ ایرانی شہریوں کے قتل کی ذمہ دار ہے۔ بیرونی سطح پر، اسرائیل نے مغربی ایشیا بالخصوص ایران میں بارہا ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردانہ کارروائیاں کی ہیں۔ اس کی تازہ مثال جون 2025 کے حملے ہیں، جب اسرائیل نے ایران کے کئی شہروں کو جارحیت کا نشانہ بنایا، جس کے باعث 1100 سے زیادہ عام شہری شہید یا زخمی ہوئے۔ یہ اعداد و شمار دلیل ہیں کہ دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ جانی نقصان اٹھانے والا ملک ایران ہے۔
ایران نے ہمیشہ خود کو انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے صف اول کا کردار ادا کیا ہے۔ اپنی سرحدوں کے تحفظ کے علاوہ، تہران نے علاقائی سرگرمیوں میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
جب 2014 میں داعش نے بغداد کی طرف پیشقدمی کی تو ایران نے عراق اور شام کو فیصلہ کن مدد فراہم کی۔ اس میں فوجی مشیر، لاجسٹک سپورٹ اور ان ممالک کی عوامی رضاکار فورسز کی منظم حمایت شامل تھی۔ بغداد اور دمشق کی اپیل پر ایران کی حمایت اس بات کا سبب بنی کہ داعش کی پیش قدمی رکی اور بالآخر اس کو شکست فاش ہوئی۔
ایران کے برعکس، مغربی طاقتوں خصوصا امریکہ نے دہشت گردی کے معاملے میں متضاد پالیسیاں اپنائیں۔ ایک طرف وہ بظاہر دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد کی قیادت کا دعوی کرتا ہے تو دوسری طرف ایسے گروہوں کی حمایت بھی کرتا ہے جو اُن کے اسٹرٹیجک مفادات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ امریکہ اور بعض یورپی حکومتوں کی جانب سے منافقین خلق کے ساتھ نرمی اور خطے میں دہشت گرد تنظیموں کی حمایت اس تضاد کی واضح مثال ہے۔
اس دوہرے معیار کی سب سے واضح جھلک جنوری 2020 میں جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت ہے۔ سپاہ پاسداران کی قدس فورس کے کمانڈر کے طور پر جنرل سلیمانی نے داعش اور دیگر انتہا پسند نیٹ ورکس کے خلاف جدوجہد میں فیصلہ کن کردار ادا کیا، جو نہ صرف خطے بلکہ عالمی سلامتی کے لیے خطرہ تھے۔ اس کے باوجود، انہیں امریکہ نے بغداد ایئرپورٹ پر ایک ڈرون حملے میں شہید کر دیا۔ یہ کارروائی وسیع پیمانے پر بین الاقوامی قانون اور ریاستی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دی گئی۔ یہ واقعہ اس تضاد کو ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اہم ترین کردار کو بھی اُس وقت نشانہ بنایا جاتا ہے جب اُن کی جدوجہد مغربی جیوپولیٹیکل اہداف سے متصادم ہو۔
وسیع جانی نقصان اور سیاسی مخالفتوں کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران اپنی انسداد دہشت گردی ایجنڈے پر کاربند ہے۔ ایرانی حکام ہمیشہ زور دیتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کو ایک عالمی اصول کے طور پر اپنایا جانا چاہیے، جس میں کسی قسم کا استثناء، دوہرا معیار یا سیاسی امتیاز نہ ہو۔ یوں ایران نہ صرف دہشت گردی کا بڑا شکار ہے بلکہ ایک اہم اور ناگزیر کردار بھی ہے جو خطے اور دنیا کی انسدادِ دہشت گردی حکمت عملیوں کی تشکیل میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
آپ کا تبصرہ