مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: آسٹریلیا کی انسانی حقوق کی تاریخ نسلی امتیاز، پناہ گزینوں کے ساتھ ناروا سلوک، کمزور طبقات کی حق تلفی اور خواتین کے خلاف بڑھتی ہوئی تشدد کی لہر سے داغدار ہے، جو کینبرا کے بارے میں اس عالمی تاثر کی مکمل نفی کرتی ہے جس میں اسے انسانی حقوق کا چیمپئن قرار دیا جاتا ہے۔
آسٹریلیا کی کوشش رہی ہے کہ دنیا کے سامنے خود کو انسانی حقوق کے میدان میں ایک نمایاں ملک کے طور پر پیش کرے۔ اس پروپیگنڈے کی وجہ سے دنیا بھر میں آسٹریلیا کی تصویر ایک کثیر الثقافتی معاشرے کے طور پر ابھرتی ہے جس کا ریکارڈ انسانی حقوق کے تحفظ میں شاندار دکھایا جاتا ہے، لیکن اس منافقانہ چہرے کے پیچھے آسٹریلیا میں انسانی حقوق کی کھلی اور وسیع خلاف ورزیاں جاری ہیں جو مختلف طبقات کو متاثر کرتی ہیں۔ ان میں سے چند پہلو ذیل میں بیان کیے جاتے ہیں:
1. آسٹریلیا میں مقامی باشندوں (ابوریجنز) کے حقوق کی پامالی
آسٹریلیا کے مقامی باشندوں کے انسانی حقوق کو سنگین طور پر پامال کیا جا رہا ہے۔ صحت کے نظام میں موجود نسلی امتیاز ان کے لیے شدید مصائب کا باعث ہے۔ مقامی باشندوں (آبوریجنز) میں دل کی بیماریوں مخصوصا ریمیٹک کی وجہ سے اموات کی شرحِ زیادہ ہے۔ یہ بیماری تقریبا پورے آسٹریلیا سے ختم ہو چکی ہے مگر مقامی آبادیوں میں اب بھی جانیں لے رہی ہے۔
عدالتی نظام میں امتیازی سلوک کے نتیجے میں بھی مقامی باشندے سخت دباؤ میں ہیں۔ وہ ملک کی آبادی کا صرف 3 فیصد ہیں لیکن آسٹریلیا کی جیلوں میں ان کا تناسب 30 فیصد ہے۔ آسٹریلیا میں مقامی قیدیوں کی موت کا مسئلہ بھی نہایت تشویشناک ہے۔ صرف 2021 میں کم از کم 11 مقامی قیدی ہلاک ہوئے، جبکہ 1991 سے 2022 کے درمیان آسٹریلوی جیلوں میں 500 سے زائد مقامی قیدیوں کی جان گئی۔ ان ہلاکتوں کی بڑی وجوہات جیل حکام کے ہاتھوں قتل یا قیدیوں کی جسمانی و ذہنی صحت کے بارے میں غفلت ہیں۔
2018 کی ایک تحقیق میں 134 مقامی ہلاکتوں کے کیسز کا جائزہ لیا گیا، جس میں سے صرف 11 کیسز پراسیکیوٹر کے پاس بھیجے گئے۔ ان میں سے صرف 5 کو آسٹریلوی کرونر نے آگے بڑھایا اور ان میں سے بھی صرف 2 مقدمات عدالت میں گئے، دونوں ہی بریت پر ختم ہوئے۔
حقیقت یہ ہے کہ 1991 میں رائل کمیشن کے بعد سے اب تک پولیس حراست میں مرنے والے 432 مقامی باشندوں میں سے کسی ایک کی ہلاکت میں ملوث ملزم کو سزا نہیں ملی۔
مزید یہ کہ مقامی بچے غیر مقامی بچوں کے مقابلے میں 17 گنا زیادہ جیلوں میں ڈالے جاتے ہیں۔ ان بچوں کو نہ صرف قید کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اکثر انہیں بالغ قیدیوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے، ملاقات کے وقت ہتھکڑیاں لگائی جاتی ہیں اور ٹیلی فون رابطے کے اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ بچے اکثر بے گھر ہوکر غربت کا شکار ہوتے ہیں اور جیل میں پہنچنے سے پہلے ہی شراب نوشی، منشیات اور تشدد کے خطرے سے دوچار ہوتے ہیں۔
آسٹریلوی حکومت نے اب تک یہ وضاحت نہیں کی کہ آخر وہ مقامی بچوں اور نوجوانوں کو بالغوں کی جیلوں میں کیوں رکھتی ہے۔ بچوں کو بالغ قیدیوں کے ساتھ رکھنا بچوں کے حقوق کے کنونشن کی خلاف ورزی ہے اور اس سے جرائم کا رجحان مزید مضبوط ہوتا ہے، جو بچوں اور معاشرے دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، آسٹریلیا کی بالغ جیلوں میں سزا کاٹنے والے کم از کم 50 فیصد بچے پہلے ہی جنسی زیادتی کا شکار رہ چکے ہیں۔ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق، پورے آسٹریلیا میں 14 سال سے کم عمر کے تقریباً 500 بچے جیلوں میں قید تھے۔
2. پناہ گزین اور انسانی حقوق کی پامالیاں
پناہ گزینوں کے ساتھ بھی آسٹریلیا کا رویہ نہایت ظالمانہ ہے۔ آسٹریلوی حکومت نے بڑے پیمانے پر پناہ گزینوں کو حراست میں رکھنے اور انہیں پاپوا نیوگنی اور ناورو منتقل کرنے کا پروگرام شروع کیا ہے۔
یہ پناہ گزین ایسے مراکز میں رکھے جاتے ہیں جہاں سورج کی روشنی تک نہیں آتی، بعض اوقات مہینوں تک ایک کمرے میں قید رہتے ہیں۔ یہ مراکز عملی طور پر جیلوں کی شکل رکھتے ہیں۔
ان مراکز میں بارہا وبائیں پھیلیں اور آسٹریلوی حکومت اور میزبان ممالک نے طبی سہولتوں میں مجرمانہ غفلت برتی۔ اس کے نتیجے میں 2013 سے 2021 کے درمیان کم از کم 12 پناہ گزین ہلاک ہوئے، جن میں سے 6 نے خودکشی کی۔
آسٹریلیا کے اندر موجود امیگریشن حراستی مراکز بھی انسانی حقوق کی پامالی کے اہم مراکز ہیں، جہاں بنیادی سہولتیں بھی موجود نہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق، آسٹریلیا میں ویزا رکھنے والے ہر تین پناہ گزینوں میں سے ایک کو کام کرنے کا حق نہیں ملتا، جس کے باعث وہ غیر قانونی طور پر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور استحصال کا شکار بنتے ہیں۔
تازہ ترین بحران افغان پناہ گزینوں سے متعلق ہے جو حکومت کے ٹوٹے وعدوں کی وجہ سے اب تک بے یقینی کی حالت میں ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر مسلسل تنقید کے باوجود آسٹریلیا نے غیر انسانی پناہ گزین پالیسی برقرار رکھی ہوئی ہے۔
3. معذور افراد کے حقوق کی پامالی
آسٹریلیا میں معذور افراد مختلف انداز میں انسانی حقوق کی پامالی کا شکار ہیں۔ یہ افراد تشدد، بدسلوکی اور استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ جیلوں میں موجود معذور افراد بھی ناگفتہ بہ حالات میں رہتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی تحقیق کے مطابق، 2010 سے 2020 کے درمیان آسٹریلیا میں دورانِ حراست مرنے والے قیدیوں میں تقریباً 60 فیصد معذور تھے۔
معذور قیدیوں کی زیادہ شرحِ اموات کی بڑی وجہ ناکافی وسائل اور ناقص طبی سہولیات ہیں۔
4. ماحولیاتی حقوق کی پامالی
آسٹریلیا دنیا کے ان 20 بڑے ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیس خارج کرتے ہیں۔ یہ نقصان دہ گیسیں ماحولیاتی بحران اور دنیا بھر میں اموات کا بڑا سبب ہیں۔
آسٹریلیا نے ماحولیاتی مظاہروں کے خلاف سخت رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ ماحولیاتی مظاہرین کو کچلنے اور گرفتار کرنے کا سلسلہ بڑھ رہا ہے، اور حالیہ قوانین کے تحت مظاہرین کو غیر متناسب سزائیں دی جارہی ہیں۔
5. خواتین کے خلاف تشدد
آسٹریلیا میں خواتین کے خلاف تشدد ایک بڑھتا ہوا بحران ہے جسے حکومت کی عدم توجہی مزید سنگین بنا رہی ہے۔ آسٹریلوی لاء کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق، ہر 10 میں سے 9 خواتین جو ریپ یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں، پولیس سے رابطہ نہیں کرتیں۔
آسٹریلوی بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق، جنسی جرائم کی رپورٹنگ ملک میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ خواتین کے قتل اور گمشدگی کے واقعات بھی رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ 2022 میں گھریلو تشدد کے نتیجے میں 43 خواتین قتل ہوئیں۔
ان اموات کے علاوہ، بچ جانے والی خواتین کو جسمانی اور نفسیاتی صدمات کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ لاپتہ ہونے والی خواتین بھی ایک المیہ ہیں۔ ہر سال آسٹریلیا میں تقریباً 30 ہزار افراد لاپتہ ہوتے ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے۔ 2021 میں آسٹریلیا میں 31 ہزار سے زائد افراد جنسی حملوں کا شکار ہوئے۔ یہ تعداد ایک سال کے اندر 13 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہے اور یہ ان جرائم میں سے ہے جن کی شرح میں بہت اضافہ ہورہا ہے۔
انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس بھی زیادہ تر ایشیائی خواتین کو نشانہ بناتے ہیں اور آسٹریلیا کے امیگریشن نظام کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں تاکہ انہیں جنسی استحصال کے لیے اسمگل کیا جاسکے۔
دنیا کے ترقی پسند ممالک پر لازم ہے کہ آسٹریلیا میں انسانی حقوق کی ان سنگین پامالیوں کو بے نقاب کریں اور بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کرنے میں کردار ادا کریں۔
آپ کا تبصرہ